اول:
کافر کی مسلمان کے لیے وصیت
مسلمان کے لیے کافر کی طرف سے کی گئی وصیت کو قبول کرنا اور وصیت کی گئی چیز کو وصول کرنا صحیح ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (6/ 121)میں کہتے ہیں:
" مسلمان کی ذمی کے لیے، ذمی کی مسلمان کے لیے، اور ذمی کی ذمی کے لیے وصیت کرنا صحیح ہے۔ مسلمان کی ذمی کے لیے وصیت کے متعلق قاضی شریح، عامر شعبی، سفیان ثوری، امام شافعی، اسحاق اور اصحاب الرائے نے اجازت دی ہے۔ ان کے علاوہ کسی کا ان اہل علم کے موقف سے اختلاف کا بھی ہمیں علم نہیں ہے۔ مزید محمد بن حنفیہ ، عطاء اور قتادہ فرمانِ باری تعالی: إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا ترجمہ: الا کہ تم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔[الاحزاب: 6] کے بارے میں کہتے ہیں: یہاں مسلمان کی یہودی، اور عیسائی کے لیے وصیت مراد ہے۔
سعید کہتے ہیں: ہمیں سفیان نے ایوب عن عکرمہ کی سند سے بیان کیا کہ: صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے نے اپنا حجرہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ میں فروخت کر دیا ، ان کا ایک ہی یہودی بھائی تھا، سیدہ صفیہ نے انہیں مسلمان ہونے کی دعوت دی کہ مسلمان ہو جاؤ تو میرے وارث بن سکو گے، لیکن اس نے انکار کر دیا، اس پر سیدہ صفیہ نے 33 ہزار کی اپنے یہودی بھائی کے لیے وصیت کر دی۔
غیر مسلم کے لیے مسلمان کا ہبہ اگر درست ہے تو پھر وصیت بھی اسی طرح درست ہو گی جیسے مسلمان کے لیے درست ہوتی ہے۔
اور اگر مسلمان کی ذمی کے حق میں وصیت صحیح ہے تو پھر ذمی کی مسلمان کے لیے اور ذمی کی ذمی کے لیے وصیت تو بالاولی درست ہو گی۔
نیز یہ وصیت انہی شرائط کے تحت صحیح ہو گی جن کے تحت مسلمان کی مسلمان کے لیے وصیت صحیح ہوتی ہے، چنانچہ اگر میت اپنے کسی وارث کے لیے یا اجنبی کے لیے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کر دے تو یہ بقیہ ورثا کی رضا مندی سے مشروط ہو گی، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی مسلمان کے لیے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کر دے۔" ختم شد
دوم:
کافر کی مسلمان کے لیے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت
اگر وصیت ایک تہائی ترکے یا اس سے کم کی ہو تو وصیت درست بھی ہو گی اور اسے نافذ بھی کیا جائے گا۔
لیکن اگر وصیت ایک تہائی ترکے سے زیادہ ہے تو یہ دیگر ورثا کی رضا مندی پر موقوف ہو گی۔
اس بنا پر: نو مسلم بہن اپنی والدہ کے دیگر ورثا سے رجوع کرے، اگر وہ اسے ایک تہائی سے زیادہ لینے کی اجازت دے دیں تو لے لے۔
اور اگر اجازت نہ دیں تو تب بھی سارا مال وصول کرے جیسے کہ وصیت میں لکھا ہوا ہے، اور شریعت سے متصادم قانون کو راہ نہ دے، لہذا وصیت میں سے ایک تہائی مال لے کر باقی شرعی تقسیم کے مطابق دیگر وارثوں میں تقسیم کر دے، اور کسی بھی طریقے سے شریعت سے متصادم قانون کو پنپنے کی راہ نہ دے۔
واللہ اعلم