0 / 0
5,40820/04/2007

زركون لگا ہوا سونا خالص سونے كے ريٹ پر خريدنے كا حكم

سوال: 36762

ہم زركون كا پتھر لگا ہوا سونا سونے كے ريٹ پر فروخت كرتے ہيں يہ علم ميں رہے كہ يہ چيز خريدار كے سامنے اور ظاہر ہے، اور وہ اسے جانتا بھى ہے، تو اس طرح فروخت كرنے كا حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

زركون كے نگينے لگے ہوئے سونے كے زيورات كو سونے كے ريٹ پر فروخت كرنے ميں كچھ تفصيل ہے:

اگر تو اسے چاندى يا كاغذ كے نوٹ كے ساتھ فروخت كيا جاتا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ خريدار كے سامنے عياں ہے، اور وہ اسے جانتا ہے جيسا كہ آپ نے بيان بھى كيا ہے.

اور اگر اس كى قيمت ميں سونا ہى ليا جائے تو پھر اس سے ان نگينوں كو عليحدہ كرنا ضرورى ہے تا كہ اس ميں سونے كى مقدار كو معلوم كيا جا سكے، اور سونے كے ساتھ سونا برابر ہونا ثابت ہو جائے، اس كى دليل فضالہ بن عبيد رضى اللہ تعالى عنہ كى وہ حديث ہے جس ميں سونے كا ہار فروخت كرنے كا ذكر ملتا ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك ہار لايا گيا جس ميں نگينے لگے ہوئے تھے اور سونا بھى تھا اور يہ غنيمت كے مال ميں سے تھا جو فروخت ہو رہا تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہار كا سونا عليحدہ كرنے كا حكم ديا تو اسے الگ كر ديا گيا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” سونے سونے كے ساتھ برابر وزن ميں فروخت ہوگا ”

اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

” اسے عليحدہ كرنے سے پہلے فروخت نہ كيا جائے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1591 ).

امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

اس حديث ميں ہے كہ:

سونا دوسرے سونے كے ساتھ اس وقت تك فروخت كرنا جائز نہيں جب تك وہ نگينہ وغيرہ سے عليحدہ نہ كر ليا جائے، تو سونا سونے كے ساتھ برابر وزن ميں اور باقى دوسرى چيز نگينے وغيرہ جس چيز كے ساتھ چاہے فروخت كر لے، اور اسى طرح چاندى بھى چاندى كے ساتھ فروخت ہو گى… اور چاہے سونے كى مقدار قليل ہو يا كثير اس كى صورت برابر ہے….

عمر بن خطاب اور انكے بيٹے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اور سلف كى ايك جماعت سے يہى منقول ہے، اور امام شافعى اور امام احمد رحمہا اللہ كا يى مسلك ہے ” انتہى مختصرا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

زركوں كے نگينوں كے ساتھ جڑے ہوئے سونے كو اتنے وزن كے سونے كے ساتھ فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

” يہ معاملہ حرام ہے، كيونكہ يہ سود پر مشتمل ہے، اس ليے كہ اس ميں سونا زيادہ ہے، وہ اس طرح كہ نگينے كے مقابلہ ميں بھى سونا بنايا جا رہا ہے، جو كہ فضالہ بن عبيد والى حديث ميں بيان كردہ ہار كے مشابہ ہے، كہ انہوں نے نگينہ جڑے ہوئے ہار كو بارہ دينار ميں خريد، تو جب ان كو عليحدہ كيا تو اس ميں سونا زيادہ تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اسے عليحدہ كرنے سے قبل فروخت نہ كيا جائے ” انتہى.

فضيلۃ الشيخ محمد بن عثيمين. مجموعۃ اسئلۃ فى بيع و شراء الذھب.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android