ايك عورت اور اس كے خاوند كے مابين اختلافات پيدا ہو گئے، تو اس عورت نے نذر مانى كہ جب بغير طلاق كے اختلافات ختم ہو گئے تو وہ سارى عمر جمعرات كا روزہ ركھے گى، اختلافات ختم ہو گئے اور اس نے جمعرات كا روزہ ركھنا شروع كر ديا، اللہ كى قدرت كہ وہ سب عورت كے ميكے گئے تو وہى اختلافات دوبارہ پيدا ہو گئے، اور خاوند نے غصہ اور جوش كى حالت ميں اسى لحظہ طلاق دے دى، عورت جمعرات كا روزہ ركھتى رہى، اور كچھ مدت بعد ان كى صلح ہو گئى اور اختلافات مكمل طور پر ختم ہو گئے.
كيا اسے پورى عمر جمعرات كا روزہ ركھنا لازم ہے، يہ علم ميں رہے كہ ايك اور نذر پور كرنے كے ليے وہ سارى عمر سوموار كا روزہ ركھ رہى ہے ؟
نذر مانى كہ اگر خاوند كے اختلافات ختم ہو گئے تو وہ ہميشہ كے ليے جمعرات كا روزہ ركھے گى
سوال: 36800
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
علماء كرام اسے نذر معلق كا نام ديتے ہيں، اور وہ يہ كہ نذر كو كسى معين چيز كے حصول پر معلق كيا جائے، اور اس كا حكم يہ ہے كہ جب بھى نذر مانى گئى چيزاطاعت والا فعل ہو تو اس كے حصول كى صورت ميں نذر پورى كرنا واجب اور ضرورى ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى نذر مانى تو وہ اس كى اطاعت كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى معصيت كى نذر مانى تو وہ اس كى معصيت و نافرمانى نہ كرے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نيكى اوراطاعت كى نذر كے بارہ ميں كہتے ہيں:
( يہ تين قسم كى ہے:
پہلى قسم: كسى نعمت كے حصول يا پھر كسى مشكل اور تكليف كے دور ہونے كے بدلے ميں اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ماننا: مثلا كوئى يہ كہے: اگر اللہ تعالى نے مجھے شفا دى تو ميرے ذمہ ايك ماہ كے روزے، تو جس چيز كى شرع ميں اصلا وجوب كى دليل ملتى ہو اس ميں اطاعت كرنا لازم ہو گى مثلا روزے، نماز، صدقہ، اور حج، اہل علم كا اجماع ہے كہ اس نذر كو پورا كرنا لازمى ہے …. )
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 622 ).
اور اس نذر ميں معلق شرط خاوند اور بيوى كے مابين بغير طلاق كے اختلافات كا خاتمہ تھى.
اور اس سوال كرنے والى عورت كا قصہ دو معاملوں سے خالى نہيں ہے:
يا تو اس كا مقصد نذر كے وقت معين اختلاف بغير طلاق كے ختم ہونا تھا، تو اس حالت ميں شرط كے حصول كى بنا پر نذر پورى كرنى واجب ہے، كيونكہ ان كا اختلاف بغير طلاق كے ختم ہو گيا تھا، اور اس كے بعد طلاق اس پر اثر انداز نہيں ہو گى، كيونكہ ہو سكتا ہے اس وقت اور كوئى اختلاف ہو گيا ہو.
اور يا پھر عورت كا مقصد يہ تھا كہ وہ اختلاف جو كسى معين سبب كى بنا پر ان ميں پيدا ہوا ہے وہ مكمل طور پر ختم ہو جائے، وہ اس طرح كہ اختلاف دوبارہ نہ ہو، تو اس حالت ميں اس پر روزے لازم نہيں كيونكہ شرط حاصل نہيں ہوئى، كيونكہ اختلاف دوبارہ پيدا ہو گئے، اور اس كے باعث طلاق بھى ہو گئى.
اور لگتا ہے كہ سوال ميں جو عبارت ( اللہ تعالى كى قدرت كہ وہى اختلافات دوبارہ پيدا ہو گئے ) اسى كى طرف اشارہ كر رہى ہے.
تو عورت كو چاہيے وہ اپنا مقصود محدود كرے اور پھر اس پر جو شرعا لازم آتا ہے اس پر عمل كرے.
اور يہ جاننا ضرورى ہے كہ نذر اصلا مكروہ ہے كيونكہ بخارى اور مسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كيا اور فرمايا:
” يہ كسى چيز كو دور نہيں كرتى بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 )
مازرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
احتمال ہے كہ نہى كا سبب يہ ہو كہ نذر اس كے ليے لازم ہو جاتى ہے، تو وہ اسے بغير چستى كے تكلف كے ساتھ پورا كرتا ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس نہى كا سبب يہ ہو كہ نذر كى بنا پر وہ اس عمل كو اس مطلوبہ عمل كے معاوضہ كے طور پر سرانجام ديتا ہے، تو اس بنا پر اس كا اجر كم ہو جاتا ہے.
اور عبادت كى شان تو يہ ہے كہ وہ تو محض اللہ تعالى كے ليے ہوتى ہے قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور احتمال ہے كہ نذر كى نہى اس وجہ سے ہو كہ بعض جاہل قسم كے لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ نذر تقدير كو پلٹ ديتى ہے، اور مقدر ميں لكھى ہوئى چيز كو روك ديتى ہے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خوف سے منع كر ديا كہ كہيں جاہل اس كا اعتقاد نہ ركھ لے، اور حديث كا سياق بھى اس كى تائيد كرتا ہے. واللہ تعالى اعلم. اھـ
ماخوذ از: شرح مسلم للنووى .
لہذا مومن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى منع كردہ اشياء سے اجتناب كرنا چاہيے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا چاہتا ہے وہ بغير كسى نذر كے ہى اطاعت و فرمانبردارى كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب