اگر کسی شخص نے قبول اسلام سے قبل کفرکی حالت میں سود پرقرض حاصل کیا توکیا قبول اسلام کے بعد اسے سود کے ساتھ ہی قرض کی ادائيگي کرنا ہوگي ؟
قبول اسلام سے قبل سودی قرض حاصل کیا توقبول اسلام کے بعد قرض کی ادائيگي کس طرح ہوگی
سوال: 3685
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے مندرجہ بالا سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیاتو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پرمیدان عرفات میں خطبہ ارشاد فرماتےہوئے کہا :
جاہلیت کا سود ختم ہے ۔
باوجود اس کےوہ جاھلیت میں اورسود کاحکم ثابت ہونے سے قبل تھا لھذا اگرممکن ہوسکے توسود ادا نہ کرے ، لیکن اسے دوبار نفع حاصل نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ولی الامر اورحکمران اس سے وہ سود لے کر صدقہ کردے یا پھر بیت المال میں جمع کرلے ۔
سوال ؟
آپ نے یہ کہا کہ :
دوبار نفع حاصل نہ کرے یہ دوبار کونسی ہیں ؟
جواب :
اول : مثلا اس نے جومال بنک سے حاصل کیا اس سے اس کا نفع حاصل کرنا ۔
دوم : زيادہ مال ، جب ہم یہ کہیں کہ وہ پہلے کونہ زيادہ نہ دے اس کا معنی ہوا کہ اسے نفع ہوا ۔۔ یعنی وہ سود خور کوزيادہ ادا نہ کرے ۔
مثلا اگر کسی نے ایک لاکھ سود پر ایک ملین حاصل کیا ہو ، توکیا ہم اسے یہ کہيں گے کہ ایک ملین ادا کرد ، اورایک لاکھ تمہارے ؟
نہيں ہم یہ نہيں کہیں گے ، بلکہ ہم کہیں گے سود خور کوایک ملین ادا کرو لاکھ ادا نہ کرو لیکن تم نفع حاصل نہ کرو کہ ایک لاکھ تمہارے ہوجائيں ، بلکہ یہ ایک لاکھ بیت المال میں جمع ہونگے یا پھر صدقہ کردیا جائے گا ۔ .
ماخذ:
الشيخ محمد بن صالح العثيمين