كيا والد كے ليے اپنى باقى اولاد كو چھوڑ كر صرف فقير يا كام كرنے سے عاجز بيٹے كو مال دينا جائز ہے ؟
اولاد ميں سے فقير كو عطيہ دينا اور دوسروں كو نہ دينا
سوال: 36872
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بعض اہل علم نے كسى بيٹے كو زيادہ مال دينے اور كسى كو نہ دينا اس وقت جائز قرار ديا ہے جب اس كا كوئى شرعى جواز پايا جائے، مثلا يہ كہ اولاد ميں سے كوئى بيٹا معذور ہو، يا اس كا گھرانہ بڑا ہو، يا وہ طلب علم ميں مشغول ہو اور كام نہ كر سكتا ہو، يا پھر ان ميں سے كوئى بيٹا فاسق يا بدعتى ہو تو ايسے بيٹے كو مال كم ديا جائے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر وہ كسى بيٹے كى تخصيص اس معنى ميں كرتا ہے كہ وہ اسے خاص كرنے كا متقاضى ہے مثلا كسى ضرورت كے پيش نظر اسے خاص كيا گيا ہو، يا پھر دائمى اور لمبے عرصہ تك بيمارى كى بنا پر، يا اس كا گھرانہ بڑا ہونے كى وجہ سے، يا وہ طلب علم ميں مشغول ہو، يا اس طرح كے دوسرے فضائل، يا كسى بيٹے كو عطيہ اس ليے نہ دے كہ وہ فاسق ہے، يا بدعتى ہے، يا پھر وہ اس عطيہ كو اللہ كى معصيت ميں استعمال كرنے كے ليے مدد لےگا، يا اسے نافرمانى ميں خرچ كريگا.
امام احمد سے اس كا جواز مروى ہے: كيونكہ وقف ميں ان ميں سے كى تخصيص كے متعلق قول ہے كہ: اگر وہ ضرورتمند ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر ترجيح كے طور پر ميں اسے ناپسند كرتا ہوں.
اور عطيہ اس كے معنى ( يعنى وقف كے معنى ) ميں ہے، اور اس كے ظاہرى الفاظ تو ايك دوسرے كو فضيلت دينے يعنى كسى كو زيادہ اور كسى كو كم دينے، يا ہر حال ميں مخصوص كرنے كى ممانعت پر محمول ہيں، اور پہلا معنى ان شاء اللہ زيادہ بہتر ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 5 / 388 ) مختصرا
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" اولاد كو عطيہ دينے ميں مشروع تو يہى ہے كہ انہيں عطيہ دينے ميں برابرى كا سلوك كيا جائے، اور ان كے درميان كسى كو زيادہ اور كسى كو كم دينا جائز نہيں ليكن كسى شرعى جواز كى بنا پر ايسا كيا جا سكتا ہے؛ كہ ان ميں سے كوئى ايك معذور ہو، يا اس كا گھرانہ بڑا ہو، يا وہ طلب علم ميں مشغول ہو.
يا اپنے كسى فاسق بيٹے يا بدعتى بيٹے كو عطيہ نہ دينا جائز ہے، يا وہ حاصل كردہ عطيہ كو اللہ كى نافرمانى ميں استعمال كرے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 193 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ كا فتاوى الكبرى ( 5 / 435 ) بھى ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب