داؤن لود کریں
0 / 0

وکیل کےمیقات کا اعتبار ہوگا

سوال: 36946

دوبرس قبل ایک شخص حج کی طاقت رکھے بغیر فوت ہوگیا اوراب اس کا خاندان اوراولاد اس کی جانب سے حج کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہيں کہ وہ کسی ایک کوپاکستان سے فوت شدہ کی جانب سے حج کے لیے بھیج سکیں ، تواس لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مکہ میں رہائش پذیر کسی مسلمان کواس کا وکیل بنائيں اوراسے قربانی اورحج کے اخراجات دیں تا کہ وہ اس فوت شدہ کی جانب سے اس طرح حج کی ادائيگي کرے اورثواب بھی حاصل کرے ؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

علماء کرام کا
صحیح قول یہی ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے والے نائب کے میقات کا اعتبار کیا
جائے گا کیونکہ وہ خود بنفس نفیس حج کررہا ہے ، اوراس میں جس کی جانب سے حج یا عمرہ
کیا جارہا ہے اس کے میقات کا اعتبار نہيں کیا جائے گا ۔

تواس بنا پرآپ کے لیے جائز ہے کہ آپ
اپنے والد کی جانب سے حج کے لیے اہل مکہ وغیرہ جوحرم کے قریب رہتے ہیں ان میں سے
کسی ایک کووکیل بنادیں .

ماخذ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 134 ) ۔

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android
at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android