بچوں کے درمیان عدم مساوات سے متعلق مجھے ایک مسئلہ در پیش ہے، وہ اس طرح کہ میرے والدین -اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے- مجھے 200 ریال ماہانہ جیب خرچ دیتے ہیں کیونکہ میں بڑا ہوں اور میری عمر 17 سال ہے، جبکہ میرے چھوٹے بھائی کی عمر 9 سال ہے تو اسے صرف 100 ریال ملتے ہیں، تو میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں: 1- کیا اضافی 100 ریال میرے لیے حرام ہیں؟ اور جتنی رقم میں خرچ کر چکا ہوں کیا وہ میں نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہے؟ 2- میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے بات کی تو وہ اس فرق پر راضی ہے، لیکن وہ ابھی تک بالغ نہیں ہوا تو کیا اس کی رضا مندی صحیح اور معتبر ہو گی؟ 3- آخری سوال یہ ہے کہ اگر میرے والدین یہ چاہتے ہوں کہ وہ میرے چھوٹے بھائی کو بھی میرے برابر ہی خرچہ دیں گے جب وہ میری طرح بڑا ہو جائے گا، تو کیا یہ بچوں میں برابری تصور ہو گا؟
بچوں کو ماہانہ خرچہ دیتے ہوئے کچھ کو زیادہ دینے کا حکم
سوال: 374766
Table Of Contents
اول:
بچوں کو جیب خرچ دیتے ہوئے بھی تحفے کی طرح برابری لازمی ہے؟
بچوں کو تحفہ دیتے ہوئے عدل کرنا لازمی ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (2587) میں سیدنا عامر بیان کرتے ہیں کہ: انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ: میرے والد بشیر نے مجھے کوئی تحفہ دیا تو عمرہ بنت رواحہ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گواہ نہیں بنائیں گے، تو میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ گئے اور کہا: میں نے اپنے عمرہ بنت رواحہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کو ایک تحفہ دیا تو میری اہلیہ عمرہ نے مجھے حکما کہا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر گواہ بناؤں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی تحفہ دیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کیا کرو۔ اس پر میرے والد واپس آئے اور اپنا تحفہ واپس لے لیا۔
جبکہ صحیح بخاری کی ہی ایک روایت (2650)میں ہے کہ: (مجھے ظلم پر گواہ مت بنائیں)
جبکہ جیب خرچ اور نفقے کے بارے میں یہ ہے کہ جیب خرچ ہر ایک کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے؛ اس لیے بڑے بچے کا جیب خرچ چھوٹے بچے کے برابر نہیں ہو گا، اسی طرح یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچے کے اخراجات پرائمری اسکول میں پڑھنے والے برابر نہیں ہوں گے، اسی طرح ایک بچے کی عمر شادی کی ہو گئی ہے اور شادی کی ضرورت بھی ہے تو وہ نابالغ کے برابر نہیں ہے ۔ یا ایسے بچے کی طرح بھی نہیں جو بالغ تو ہے لیکن اسے شادی کی ضرورت نہیں۔
چنانچہ صاحب کشاف القناع (3/ 309) کہتے ہیں:
"والد اور والدہ سمیت دیگر تمام عزیز اقارب پر واجب ہے کہ بچوں کے درمیان عدل کریں: وہ تمام رشتہ دار تحفہ دیتے ہوئے عدل کریں جو رشتہ داری کی وجہ سے ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں چاہے وہ بیٹا ہو، یا باپ ہو یا ماں، بھائی، بھتیجا، چچا، چچا زاد وغیرہ۔۔۔ تاہم معمولی چیز پر عدل کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سے ہر کوئی چشم پوشی کر لیتا ہے اس لیے معمولی تحفے پر کوئی اثرات رونما نہیں ہوتے؛ ہاں جیب خرچ اور لباس ضرورت کے مطابق دیا جائے گا اس میں عدل اور برابری ضروری نہیں ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے تحفے اور جیب خرچ میں فرق بتلاتے ہوئے کہا ہے کہ:
"مؤلف رحمہ اللہ نے ہمیں بتلایا کہ برابری اور عدل صرف عطیہ اور تحفہ دیتے ہوئے ہو گا نفقہ اور جیب خرچ میں نہیں؛ جیب خرچ ان کی ضرورت اور حاجت کو دیکھ کر دیا جائے گا، لہذا بچوں کو جیب خرچ اتنا دینا ہے کہ ان کی ضروریات پوری ہو جائیں، چنانچہ اگر فرض کر لیں کہ بیٹی غریب ہے اور بیٹا امیر ہے، تو یہاں بیٹی پر خرچ کرے گا لیکن اتنا ہی خرچ بیٹے کو نہیں دے گا؛ کیونکہ جیب خرچ ضرورت پوری کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو جیب خرچ دیتے ہوئے عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق دیا جائے۔ مثلاً: فرض کریں کہ ایک بچہ اسکول میں پڑھتا ہے اور اسے اسکول کی ضروریات کاپی، کتابیں، پین، سیاہی وغیرہ پوری کرنے کے خرچہ چاہیے اور دوسرا پڑھتا ہی نہیں ہے ، اور یہ دوسرا بڑا بھی ہے لیکن اسے ضرورت نہیں ہے، تو کیا اب اگر پہلے بیٹے کو دے تو کیا دوسرے کو بھی اتنے ہی دینے ہوں گے؟
جواب: نہیں ، یہ واجب نہیں ہے؛ کیونکہ جیب خرچ اتنا ہی دیا جاتا ہے جتنی اس کی ضرورت ہو۔
اس کی مثال یوں سمجھیں: ایک بیٹے کو سرخ رومال اور ٹوپی کی ضرورت ہے جس کی قیمت 100 ریال ہے، جبکہ بیٹی کو کانوں کی بالیوں کی ضرورت ہے جس کی قیمت 1000 ریال ہے تو اس صورت میں عدل کیا ہو گا؟
اس صورت میں عدل یہ ہو گا کہ لڑکے کے لیے 100 ریال میں رومال اور ٹوپی خریدے، جبکہ بیٹی کے لیے 1000 ریال میں بالیاں خریدے اگرچہ یہ لڑکے پر ہونے والے خرچے سے 10 گنا زیادہ ہے، یہاں یہی عدل ہے۔
اس کی ایک اور مثال سمجھیں: ایک کو شادی کی ضرورت ہے اور دوسرے کو نہیں ہے، تو اس میں عدل کی کیا صورت ہو گی؟
اس صورت میں عدل یہ ہے کہ جسے شادی کی ضرورت ہے اس کی شادی کروا دی جائے اور دوسروں کو کچھ نہ دیا جائے، ایسی صورت میں بعض لوگ غلطی کرتے ہیں کہ جب شادی کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی شادی کر دیں تو وہ چھوٹے بچوں کے لیے وصیت لکھ جاتے ہیں کہ میری وراثت کے ایک تہائی حصے سے ان کی شادیاں کی جائیں، تو یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ شادی ضروریات میں شامل ہے، اور چھوٹے بچے ابھی شادی کی عمر کو پہنچے ہی نہیں تو ان کے لیے وصیت کر کے جانا حرام ہے، بلکہ اگر کوئی کر بھی جائے تو اس وصیت کو پورا نہیں کیا جائے گا، بلکہ وارثوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہو گا کہ اس وصیت کو نافذ کریں؛ ہاں بالغ اور سمجھدار کی شادی اس کی رضا مندی سے اور اسی کو وراثت میں ملنے والے حصے سے کی جا سکتی ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (4/ 599)
اس بنا پر اگر آپ دونوں کو ملنے والا سارا جیب خرچ صرف ضروریات کو ہی پورا کرتا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی کوئی بھی چیز خریدنی ہے وہ انہی میں سے خریدنی ہے لباس، تعلیمی اشیائے ضرورت وغیرہ تو پھر یہاں برابری ضروری نہیں ہے؛ بلکہ دونوں میں سے ہر ایک کو صرف اتنا ہی دیا جائے گا جتنی اسے ضرورت ہے۔
اور اگر آپ کو ملنے والا جیب خرچ کچھ بچ جاتا ہے، خرچ نہیں ہوتا تو یہ بچنے والا مال تحفہ شمار ہو گا، اس میں عدل ضروری ہے۔
مثلاً: فرض کریں کہ اگر آپ کو اپنے کھانے پینے، اور لباس وغیرہ سمیت اسکول آنے جانے کے لیے ٹوٹل 150 ریال کی ضرورت ہے، لیکن آپ کے پاس 50 ریال بچ جاتے ہیں تو یہ 50 ریال تحفہ ہیں اس میں عدل ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ضروری ہو گا کہ دوسرے بھائی کو بھی اسی طرح 50 ریال اضافی دئیے جائیں یہ اس صورت میں ہے جب اسے ملنے والے 100 ریال سارے کے سارے اس کی ضروریات میں خرچ ہو جاتے ہوں۔
ویسے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جیب خرچ کو نفقہ میں شامل کیا جاتا ہے تحفے میں نہیں، اس لیے اگر ایک بچے کو کم اور دوسرے کو زیادہ دے بھی دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
تحفہ دیتے ہوئے اگر فرق روا رکھا گیا ہے تو اسے قبول کرنے کے لیے کون سی رضا مندی معتبر ہو گی؟
اگر دوسرا فریق اس فرق کو قبول کر لے اور اجازت دے دے تو تحفے میں یہ فرق جائز ہو جائے گا، تاہم یہ اجازت ایسے شخص سے ہی لی جائے گی جو اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہو اور خود مختار وہی ہوتا ہے جو بالغ، عاقل اور سمجھدار ہو۔ سمجھدار اسے کہتے ہیں جو بیوقوف نہیں ہوتا اور اپنے مالی معاملات میں صحیح فیصلہ کرتا ہے۔ اس لیے چھوٹا بچہ، پاگل شخص اور بے وقوف کی اجازت معتبر نہیں ہو گی۔
جیسے کہ کشاف القناع (4/ 310) میں ہے کہ:
"ماں اور باپ اپنے بعض وارث بننے والے رشتہ داروں کو بقیہ رشتہ داروں کی اجازت سے خاص اور الگ سے تحفہ دے سکتا ہے؛ کیونکہ خاص تحفہ دینا اس لیے حرام قرار دیا گیا جب یہ باہمی قطع رحمی اور عداوت کا باعث بنے جو کہ یہاں اجازت مل جانے کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے؛ چنانچہ اگر کسی کو خصوصی طور پر تحفہ اجازت کے بغیر دے دے تو پہلے بیان شدہ وجہ کی بنا پر اسے گناہ ہو گا۔" ختم شد
اسی طرح صفحہ(4/299) میں لکھتے ہیں:
"تحفے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے فرد کی طرف سے ہو جس کا اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہو؛ لہذا چھوٹے بچے، پاگل ، اور غلام کی طرف سے تحفہ صحیح نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے ان کے دیگر معاملات قابل اعتبار نہیں ہوتے۔" ختم شد
مندرجہ بالا تفصیلات کے مطابق: ہبہ اور تحفہ سے متعلق عدم مساوات کے معاملے کو اگر آپ کے نابالغ بھائی نے قبول کر بھی لیا ہے تو یہ معتبر نہیں ہو گا۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب