اول:
ڈیمنشیا، زائمر یا دیگر دماغی امراض سے متاثر ہونے والے کو قانونی طور پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور اس طرح اس کے مال کو ضائع ہونے سے روکا جا سکتا ہے، ایسے شخص کے مال کو صرف اس کے ذاتی اخراجات اور ایسے لوگوں پر خرچ کیا جائے جن کا خرچہ اس مریض کے ذمہ ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کہتے ہیں: جو بوڑھا آدمی ذہنی مریض ہو اسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روکا جائے۔ یعنی اگر وہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور دماغی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو اسے قانونی طور پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے ؛ چنانچہ اسے پاگل کی طرح دولت ضائع کرنے سے روکا جائے گا؛ کیونکہ وہ اپنی دولت کو اس طریقے سے تصرف کرنے سے قاصر ہو گیا ہے کہ اپنے مفادات کو تحفظ دے سکے ، نیز وہ اپنے مال کی دیکھ بھال کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یعنی وہ نابالغ اور بے وقوف شخص کے حکم میں ہے۔ ختم شد
" المغنی "(6/610)
قانونی نااہلی کا اعلان قاضی (جج) کرے گا؛ اور اسی قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی طور پر نااہل سمجھے جانے والے کی دیکھ بھال کے لیے ایک سرپرست مقرر کرے۔
ہم پہلے سوال نمبر : (202990)کے جواب میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اگر کوئی اسلامی عدالت نہیں ہے، تو اس شخص کے بچوں کو مال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کے لئے کسی کو منتخب کرنا چاہئے، کیونکہ یہ ذمہ داری محجور [قانونی طور پر پابندی لگائے گئے شخص] کے ایسے قریب ترین لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں جو اس شخص کے مفادات کا بھر پور خیال رکھیں۔
دوم:
سرپرست یا نگران کو اس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ اس شخص کا زیادہ مفاد کس چیز میں ہے؟ اور اس کے مال کو بھر پور انداز میں تحفظ دے۔ اسے اسی مریض کی ذاتی ضروریات یا ان کی ضروریات میں خرچ کرے جن کے اخراجات کا یہی مریض ذمہ دار ہے۔
جیسے کہ "الموسوعۃ الفقہیہ" (45/162) میں ہے:
"فقہائے کرام کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سرپرست کے لیے جائز نہیں کہ وہ محجور کے مال میں تصرف کرے، ہاں محض محتاط انداز سے دیکھ بھال میں خرچ کر سکتا ہے، نیز ایسی جگہ خرچ کر سکتا ہے جہاں محجور شخص کا واضح مفاد ہو؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ: (نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)
فقہائے کرام نے اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: سرپرست کو کوئی ایسا کام کرنے کا حق نہیں ہے جس سے محجور یعنی قانونی طور پر نااہل سمجھے جانے والے کو فائدہ نہ ہو، مثلاً: تحفہ دینا، وصیت کرنا، صدقہ دینا، غلاموں کو آزاد کرنا یا لین دین میں احسان کرنا ( معمول کی قیمت سے زیادہ ادا کر نا)، یا نان و نفقہ میں معمول سے بڑھ کر خرچ کرنا، یا کسی ایسے شخص کو کچھ دیا ہو جو واپسی کے حوالے سے ناقابل اعتبار ہو؛ کیونکہ یہ محجور کی ملکیت میں سے مال بغیر کسی فائدے کے دیا جا رہا ہے اس لیے یہ محض نقصان ہے۔
اسی طرح فقہائے کرام کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سرپرست محجور کے مال میں سے محجور پر اور اس کے زیر کفالت پر خرچ کرے، تاہم یہ خرچ اسراف کے بغیر اور معقول انداز سے بخیلی کے بغیر ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِيْنَ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا ترجمہ: اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان ہمیشہ اعتدال رکھتے ہیں۔ [الفرقان: 25]
شافعی اور حنبلی فقہائےکرام کہتے ہیں:
"اگر بخیلی کرے تو یہ بھی باعث گناہ ہے، اور اگر اسراف سے خرچ کرے تو اپنی کوتاہی کی وجہ سے اس کا مکمل ضامن بھی ہو گا۔"ختم شد
اس بنا پر والد کی دولت کا خیال رکھا جائے اور اس میں سے صدقہ نہ کیا جائے۔ نیز زمین کے ارد گرد باڑ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس سے والد کی املاک محفوظ ہوں گی۔
جیسے کہ منار السبیل: ( 1 / 388 ) میں ہے:
"نابالغ یا دیوانے یا بے عقل کے سرپرست کے لیے ان کے مال میں تصرف کرنا حرام ہے ، سوائے اس طریقے کے جس سے انہیں فائدہ ہو؛ کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو بہترین ہو۔ [الانعام : 152]
اس آیت کی روشنی میں بے عقل اور دیوانہ بھی یتیم کے حکم میں آتا ہے۔ لہذا ان کے مال کا تحفظ بھی یتیم کے مال کی طرح ضروری ہے۔" ختم شد
والد کی وفات کے بعد قربانی کرنے اور صدقہ کرنے کی وصیت کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ صحیح وصیت ہے جو والد کی وفات کے بعد اس آخری رقم میں سے پوری کی جائے گی جو آپ کے کزن کو دی تھی بشرطیکہ وہ کل ترکے کا ایک تہائی سے کم ہو اور اگر ایک تہائی سے زیادہ ہے تو اس وصیت کی تعمیل وارثوں کی اجازت سے مشروط ہو گی۔
واللہ اعلم