میرا خاوند شافعی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اوروہ اس میں متعصب ہے ، اورجب میں کسی فتوی کواختیار کرتی ہوں کہ دلیل کے اعتبار سے یہ قوی اورصحیح ہے اوراس میں مذاہب اربعہ کونہیں دیکھتی تومیرا خاوند کہتا ہے کہ مجھے ایسا کرنے کا کوئي حق نہیں ، حالانکہ میں کوئي عالمہ نہیں توکیا یہ صحیح ہے ؟
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب ضرور دیں کیونکہ اس کی وجہ میں میرے گھرمیں بہت کشیدگی پائي جاتی ہے ۔
خاوند اوربیوی کےمابین فقھی اختلافات کی وجہ سے گھریلو کشیدگی
سوال: 3755
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس کے جواب میں کچھ معلومات کی ضرورت ہے کہ کچھ جوانب کا علم ہونا چاہیے :
1 – کسی بھی مذھب میں تعصب رکھنا سے دور رہنا چاہیے اس کی بہت ہی زيادہ اھمیت ہے چاہے وہ مذہب فقہی ہو یا پھر فکری وغیرہ ، بلکہ اس سے دور ہٹ کر کتاب وسنت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے کہ جوقرآن و سنت میں ہے اسے تسلیم کیا جائے اوران کے طریقے کواپنا طریقہ بنایا جائے ۔
2 – فقھاء کے اقول لینے میں ایک چيز جسے میلان کا نام دیا جاتا ہے بھی پائي جاتی ہے ، اس میں اس قدر ترجیح نہیں ہوتی جتنی کہ خواہش اور رخصتوں پر چلنے اور انسان اپنی غرض کے موافق اقوال کولینے میں ہوتی ہے ۔
اورپھر انسان میں تاویل کی بھی ایک نوع ہوتی ہے اوربعض اوقات کچھ ایسے دوافع پائے جاتے ہیں جنہیں وہ صحیح سمجھتا ہے ، اوراس کی غلطی اسے جلدواضح نہیں ہوتی بلکہ کچھ مدت گزرنے کے بعد اسے وہ غلطی نظر آتی ہے ۔
تو اس لیے کسی قول کواختیار کرنے یا اس کی ترجیح میں ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلہ میں دراسہ کرلیا جائے اوراس کے دلائل کو دیکھ کرانہیں پرکھا جائے اورہر فریق کے دلائل اوربراہین کا تتبع کرکے موازنہ کیا جائے کہ کس کے دلائل صحیح ہیں جوکہ ایک متمکن طالب علم ہی کرسکتا ہے ، یا پھر دینی علم میں مشہور عالم جوکہ ورع و تقوی میں معروف ہے اوراس پر نفس بھی مطمئن ہوکہ اس میں اخلاص اور وسعت علم بھی ہے وہ کرے ، تو جس کے دلائل قرآن و سنت کے مطابق ہوں اسے مان لیا جائے۔
3 – ازدواجی زندگی میں گھر کے اندر اختلافات سے بچنا ضروری ہے اور اولی ہے ، کسی رائے کودوسری رائے پر مقدم کرنے یا کسی مذھب کوکسی مسئلہ میں مقدم کرنے میں اختلافات سے بچنا چاہیے جب کہ وہ مسئلہ بھی ایسا ہوجس میں کئي ایک اقوال کا احتمال ہو اوروہ آپس میں معارض بھی ہوں ۔
اوراس میں یہ کوشش اورحرص کرنی چاہیے کہ خاوند کوبڑے آرام سے اس پر مائل کریں کہ وہ دلائل پر اعتماد کرے نا کہ کسی خاص مسلک اورمذھب اورقول پر ، کیونکہ کومذاہب میں کوئي مذہب اورعالم ہر وقت صحیح نہيں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس میں تبدیلی بھی آسکتی ہے ۔
اورجب کسی بھی امام کا قول مشہوردلیل اورحدیث کے مخالف ہو تو اسے ترک کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی خود ہی فرماتے ہیں :
جب میرا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مخالف ہو تومیرا قول دیوار پر دے مارو ۔
تواس سے یہ معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل ہوگا نہ کہ کسی امام کے قول پر۔
اس لیے اگرآپ اورآپ کا خاوند متمکن شرعی طالب علم نہیں تو پھر آپ کسی عالم دین سے رجوع کریں اوراس سے مسائل پوچھیں ، اوریہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی ایک عالم دین کے بارہ میں اتفاق کرلیں ہم اس سے مسائل پوچھا کریں گے تو یہ بہتر ہے ۔
اوراگرآپ کسی ایک عالم کو اوروہ کسی دوسرے عالم کو اختیار کرتا ہے تو پھر آپ اس میں بھی قرآن وسنت کے دلائل کوسامنے رکھیں اورآپ قرآن وسنت کے دائرہ میں رہتےہوئے ان عالموں کی بات تسلیم کریں ، اوراگرآپ کوسمجھ نہيں آتی توپھر ان سے پوچھیں اوراس پر عمل کریں اگروہ غلط بتائے گا توجواب دہ ہوگا ۔
خاوند اپنے عالم دین کی بات مانے اورآپ اپنے کی ۔( لیکن قرآن وسنت کو معیار بنائيں ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد