میں اپنے پڑوسی کے ساتھ ٹیکسی میں سوار ہوا تو میں نے اسے قسم اٹھا کر کہا کہ میں ہی کرایہ ادا کروں گا، لیکن افسوس کہ وہ بھی ادائیگی پر اصرار کرتا رہا، اور اس نے کرایہ دے دیا، اب مجھے کیا کرنا ہو گا؟ کیا مجھے قسم کا کفارہ دینا ہو گا؟
اس نے قسم اٹھائی تھی کہ کرایہ وہ دے گا، لیکن دوست نے ادا کر دیا۔
سوال: 376676
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر کوئی شخص مستقبل میں کسی کام کو کرنے کی قسم اٹھا لے کہ وہ خاص کام کرے گا، لیکن وہ نہ کرے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہو گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی کسی کام کو کرنے کی قسم اٹھائے لیکن نہ کرے، یا کسی کام کو نہ کرنے کی قسم اٹھائے اور کر بیٹھے تو اس پر کفارہ ہو گا، تمام مسلم خطوں کے فقہائے کرام کے ہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: وہ قسم جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کے ہاں اجماعی طور پر کفارہ ہے: وہ ایسی قسم ہوتی ہے جو مستقبل میں کسی کام کے متعلق اٹھائی جائے۔" ختم شد
"المغنی" (13/445)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
میرے پاس رات کے وقت ایک مہمان آیا، اور میرے منہ سے نکل گیا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لیے جانور ذبح کرواؤں گا، اور اس نے بھی قسم اٹھا لی کہ میں اس کے لیے جانور ذبح نہ کرواؤں، مہمان نے مجھے تین بار یہ بھی کہا کہ: اللہ کی رضا کے لیے ، میرے لیے جانور ذبح مت کرنا۔ اس پر میں اپنی ضد سے پیچھے ہٹ گیا اور مجھے بھی اچھا نہ لگا کہ میں اب مزید اس کی بات کاٹوں، اس صورت حال میں مجھے واضح کریں کہ میں کیا کروں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ نے ذکر کیا ہے تو پھر آپ قسم کا کفارہ دیں گے جو کہ : ایک غلام آزاد کرنا، یا 10 مساکین کو کھانا کھلانا، یا انہیں لباس فراہم کرنے کی صورت میں ہو گا۔ اور اگر آپ کے پاس اس کی استطاعت نہ ہو تو پھر تین روزے رکھیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ
ترجمہ: اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ۔ اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کی پوشاک ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ [المائدۃ: 89]
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اور رحمت و سلامتی ہوں ہمارےنبی محمد ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔
دائمی کمیٹی برائے فتوی و علمی تحقیقات
الشیخ عبد اللہ بن غدیان الشیخ عبد الرزاق عفیفی الشیخ عبد العزیز بن باز۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (23/73)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ہم جس وقت دوستوں کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں اکٹھے ہوتے ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں کھانے کا بل ادا کروں گا، لیکن کوئی اور دوست ادائیگی کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور میں قسم اٹھا لیتا ہوں کہ میں ہی ادا کروں گا، اور دوست پر بھی قسم ڈال دیتا ہوں کہ آپ ادائیگی نہیں کرو گے، لیکن وہ میری قسم کی بالکل پرواہ نہیں کرتا تو کیا یہ جائز ہے؟ اور کیا میری یہ قسم معتبر ہو گی اور اس کا کفارہ مجھ پر ہو گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اول: میں سائل سمیت دیگر لوگوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ کسی دوسرے پر کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم نہ ڈالا کریں؛ کیونکہ اس طرح وہ خود بھی تنگ ہوں گے اور دوسروں کو بھی تنگ کریں گے، انہیں تنگی اس طرح ہو گی کہ اگر یہ شخص قسم کا خیال نہیں کرتا تو قسم ڈالنے والے پر کفارہ لازم ہو گا۔ اور دوسروں کو تنگی اس طرح ہو گی کہ قسم ڈالا ہوا عمل مشقت اٹھاتے ہوئے کرے گا، اور بسا اوقات یہ بھی ہے کہ قسم ڈالنے والے کا منہ رکھتے ہوئے مشقت کے ساتھ اسے نقصان بھی اٹھانا پڑے ، اور اس میں واضح طور پر تنگی اور حرج ہے۔
جبکہ کفارے کے بارے میں یہ ہے کہ: جب کوئی شخص اپنے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی قسم اٹھائے یا ڈالے ، تو وہ ساتھ میں ان شاء اللہ کہے ، یعنی وہ کہے: اللہ کی قسم ان شاء اللہ تم ایسے کرو گے، یا میں ایسے کروں گا۔ یا وہ ان شاء اللہ نہیں کہتا۔
اگر تو وہ ان شاء اللہ کہتا ہے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی اور نہ ہی اس پر کفارہ ہو گا، چاہے جس پر قسم ڈالی گئی ہے وہ قسم نہ پوری کرے۔
اور اگر ان شاء اللہ نہیں کہتا تو پھر قسم کے خلاف کام کرنے پر اس کی قسم ٹوٹ جائے گی ۔
انسان کو چاہیے کہ جب کسی چیز کی قسم اٹھائے چاہے اپنے بارے میں یا کسی اور پر قسم ڈالے تو ساتھ میں ان شاء اللہ بھی کہہ دیا کرے؛ کیونکہ ان شاء اللہ کہنے سے دو بڑے فائدے ہوں گے۔
پہلا فائدہ: اس سے وہ کام آسان ہو جائے گا جس کی قسم اٹھائی گئی ہے۔
دوسرا فائدہ: اگر حالف قسم کو توڑ دیتا ہے اور وہ کام نہیں کرتا جس کی قسم اٹھائی، یا وہ کام کر لیا جس کو ترک کرنے کی قسم اٹھائی تھی تو پھر اس پر کوئی کفارہ نہیں ہو گا۔۔۔
اور سوال میں سائل نے بتلایا کہ اس کے دوست نے قسم کے باوجود ادائیگی کر دی تو اب سائل پر لازم ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے؛ کیونکہ اس کے دوست نے اس کی قسم پوری نہیں کی۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (11/256-257)
اور اگر آپ اپنے دوست کو کرائے کی رقم بھی تھما دیں تو تب بھی آپ سے قسم کا کفارہ ساقط نہیں ہو گا؛ کیونکہ قسم تو ٹوٹ چکی ہے اور اس وجہ سے کفارہ بھی لازم ہو چکا ہے، کیونکہ آپ کے دوست نے وہ کام کر دیا جس کے نہ کرنے کی قسم آپ نے ڈالی تھی۔
قسم کی کفارے کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے آپ سوال نمبر: (45676 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات