میرا خاوند یہ نہیں چاہتا کہ بچے پیدا ہوں ، اورہمیشہ ہی وہ حمل کے ابتدائي مراحل میں مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں حمل ساقط کرادوں ( ماہواری ختم ہونے کے پہلے ہفتہ میں ہی ) تواس میں اسلام کا حکم کیا ہے ؟
خاوند کا کہنا ہے کہ اس کے بارہ میں ساری مسؤلیت اس کی ہے ، جب وہ ایسا کرنے پر حریص ہوتومجھے کیا کرنا چاہیے ، باقی معاملات میں وہ بہت ہی اچھا مسلمان خاوند ہے ؟
آّّپ سے گزارش ہے کہ آپ میری راہنمائی فرمائيں ۔
شادی کی ابتداء میں منع حمل
سوال: 3767
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مندرجہ ذيل سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا :
کیا شادی کے ابتدائي دوبرس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی سےمنع حمل جائز ہے ، تا کہ خاوند اوربیوی کے مابین ازدواجی زندگي میں استمرار پر اطمنان ہوسکے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل جواب تھا :
ایسا کرنا حرام نہیں ، لیکن بہتر اورافضل یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے بلکہ انہیں نیک شگون اورنیک فال لینی چاہیے اوراللہ تعالی پر حسن ظن رکھنا چاہیے ۔ انتھی ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ کی پیدائش میں جلدی خاوند اوربیوی کے مابین محبت والفت اورتعلقات میں زيادتی اوررشک و غبطہ پیدا کرے ، اوروہ بچہ خاوند اوربیوی اوران کے خاندان والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد