مجھے بہت زیادہ پسینہ آنے کی شکایت ہے، کیونکہ بسا اوقات میرے ہاتھوں سے پسینہ پانی کی طرح بہنے لگتا ہے، مجھے اپنی جلد پر پانی کے درجہ حرارت کا بھی احساس نہیں ہوتا، نہ ہی مجھے پانی کے جلد پر لگنے کا احساس ہوتا ہے، نہ ہی مجھے لگتا ہے کہ پانی میرے ناخنوں کے نیچے تک پہنچتا ہے، جس وقت میں شیمپو یا صابن استعمال کروں تو مجھے لگتا ہے کہ میرے ہاتھوں پر کوئی چیز لگی ہوئی ہے، میری جلد مجھے بہت ہی نرم لگتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ شیمپو یا صابن کی وجہ سے میرے ہاتھ وغیرہ پر ہلکی سی کوئی تہہ چڑھ جاتی ہے، تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ میری نفسیاتی حالت کی وجہ سے ہو، تو ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
لڑکے کو پسینہ بہت زیادہ آتا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ شیمپو ، صابن کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں تو کیا اس کا غسل ٹھیک ہو گا؟
سوال: 377679
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
وضو اور غسل میں کسی بھی ایسی چیز کو ہٹانا لازم ہے جو پانی کو جلد تک نہ پہنچنے دے، تا کہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق عضو کو دھونا ممکن ہو۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو، اور اپنے سروں پر مسح کرو، اور اپنے پاؤں کو دونوں ٹخنوں تک دھو لو۔ [المائدۃ: 6]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: (جب تمہیں پانی ملے تو اپنی جلد پر لگاؤ؛ کیونکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (332) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
اگر کسی شخص کے وضو والے اعضا میں سے کسی عضو پر کوئی ایسی چیز لگی ہو جس سے پانی جلد تک نہ پہنچ پائے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے اپنا وہ عضو دھو لیا ہے، یا اس نے اپنی جلد تک پانی پہنچایا ہے۔
تو اس مسئلے میں ضابطہ یہ ہے کہ:
جس چیز کا جسم ہے، یعنی ناخن پالش اور دیگر پینٹس وغیرہ جن کا وجود ظاہر ہوتا ہے ان کو زائل کرنا لازم ہے۔
اور ایسی چیز جس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات باقی رہتے ہیں ، یا پھر اس کی چکناہٹ ہوتی ہے جیسے کہ زیتون کا تیل یا شیمپو یا صابن وغیرہ تو اسے زائل کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ شیمپو یا صابن کے جھاگ کا وجود باقی نہیں رہتا، البتہ ان کی وجہ سے جسم میں نرمی آ جاتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (1/ 456)میں کہتے ہیں :
"جب اس کے کسی عضو پر موم یا آٹا، یا مہندی وغیرہ لگی ہو جو پانی کو اس کے عضو تک پہنچنے میں مانع ہو تو اس کی طہارت صحیح نہیں ہو گی، چاہے زیادہ ہو یا کم، لیکن اگر اس کے ہاتھ وغیرہ پر مہندی کا اثر یا اس کا رنگ ہو تہہ نہ جمی ہو، یا پھر مائع تیل کا اثر ہو، کہ پانی عضو کی جلد کو لگ جائے اور اس پر پانی چلے لیکن ٹھرے نہ تو اس کی طہارت اور وضو صحیح ہے۔" ختم شد
ابن شطا البکری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روشنائی اور مہندی کی رنگت کے اثرات طہارت کے لیے رکاوٹ نہیں ہیں، یہاں رنگت سے مراد مہندی یا روشنائی کا داغ ہے کہ انہیں کھرچنے سے کھرچا نہ جائے۔" ختم شد
"اعانة الطالبين" (1 / 35)
اس بنا پر :
صابن یا شیمپو استعمال کرنے کے بعد ملائم جلد محسوس ہو تو اس سے یہ نہ سمجھیں کہ جلد پر کوئی تہہ جمنے کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے، اس لیے اس کی طرف توجہ نہ دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسی طرح بہت زیادہ پسینہ آنے یا نہ آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
البتہ آپ کو طہارت اور دیگر مسائل میں وسوسوں سے بچنا چاہیے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب