میں مملکت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا رہائشی ہوں اور رمضان المبارک میں میں بیوی اوراپنے تین بچوں سمیت عمرہ کی ادائيگي کے لیے گیا اورمیری دس برس کی بچی نے بیمار ہونے کے باوجود احرام باندھا اورعمرہ کی نیت بھی کرلی لیکن شرط نہیں لگائي ، اس نے طواف کے دو چکرلگائے اوراپنا عمرہ مکمل نہ کرسکی ، اورہم ریاض واپس چلے آئے ، توکیا اس طرح میرے اوپرکچھ لازم آتا ہے اورمجھے کیا کرنا ہوگا ؟
اس کی چھوٹی بچی نے طواف کے دوچکرلگائے اوربیماری کی وجہ سے عمرہ مکمل نہ کرسکی
سوال: 37995
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگرتوآپ کی بیٹی احرام ختم کرتے وقت بالغ ہوچکی تھی تواس حالت میں جمہورعلماء کرام کے ہاں اس پرفدیہ لازم آتا ہے – اورفدیہ یہ ہے کہ ایک بکرا مکہ میں ذبح کرکے حرم مکہ کے فقراء میں تقسیم کیا جائے – اورہروہ شخص جو بیماری یا دشمن وغیرہ کی وجہ سے روک دیا جائے اوروہ اپنا عمرہ یا حج پورا نہ کرسکے اوراس نے شرط بھی نہ لگائي ہو تواس کا بھی یہی حکم ہوگا ۔
اگرمسلمان شخص کوکسی قسم کا خدشہ ہواوراسے کوئي مجبوری لاحق ہونےکا خدشہ ہومثلابیماری یا خوف وغیرہ جس کی بنا پروہ اپنا عمرہ یا حج پورا نہ کرسکے تواس کے لیے جائز ہے کہ وہ احرام باندھتے وقت شرط لگاتے ہوئے احرام باندھنے کےبعد مندرجہ ذيل دعا پڑھے :
( إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني ) اگرمجھے کسی روکنے والے نے روک دیا توجہاں مجھے توروکے گا وہی میرے حلال ہونے کی جگہ ہوگی ۔
اس شرط یا دعا کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگراسے کوئي چيزلاحق ہوجاتی ہے توبغیر کسی فدیہ کی ادائيگي کے وہ احرام کھول سکتا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گيا :
جب کوئي شخص حج کا عمرہ کا تلبیہ کہتا ہوا میقات سے آگے گزر جائے اوراس نے شرط بھی نہ لگائي ہواوراسے کوئي عارضہ لاحق ہوجائے مثلا بیماری وغیرہ اوراسے حج یا عمرہ مکمل نہ کرنے دے تواسے کیا کرنا لازم ہوگا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
یہ محصرشمار ہوگا اوراگر اس نے شرط نہ لگائي ہواورکوئي ایسا حادثہ ہوجائے تواسے تکمیل کرنے سے روک دے تواگر اس کے لیے صبرکرنا ممکن ہو شائد کہ اس حادثے کا اثرزائل ہوجائے اورمانع ختم ہواورپھر مکمل کرلے اسے صبر کرنا چاہیے ، اوراگرایسا کرنا ممکن نہ تووہ صحیح قول کے مطابق محصر ہی ہے اوراللہ تعالی نے محصر کے بارہ میں فرمایا ہے :
ہاں اگر تم روک لیے جاؤ توجوقربانی میسرہو اسے ذبح کرڈالو البقرۃ ( 196 ) ۔
اورصحیح یہی ہے کہ احصار یعنی روکنا دشمنی کی وجہ سے بھی ہوتا اوردشمن کے علاوہ کسی اورسبب سے بھی ہوسکتا ہے ، لھذا وہ قربانی ذبح کرکے اپنا سرمنڈوائے گا یا پھر بال چھوٹے کروائے اوراحرام کھول کرحلال ہوجائے ، محصر یعنی جسے روک دیا جائے اس کا یہی حکم ہے ۔
یعنی وہ جس جگہ اسے روک دیا گيا ہے وہ اسی جگہ پرقربانی ذبح کردے چاہے وہ حرم میں ہویا حرم سے باہر وہ وہیں کے فقراء میں گوشت تقسیم کردے اگرچہ وہ حرم کے باہر ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن اگر اسے فقراء میسر نہ آئيں توحرم میں لے جاکروہاں کے فقراء میں گوشت تقسیم کیا جائے گا یا پھر اس کے ارد گرد دوسری بستیوں کے فقراء میں گوشت تقسیم کرنے کے بعد اپنا سر منڈوائے یا بال چھوٹے کروا کرحلال ہوجائے ، اوراگر وہ قربانی کرنے کی طاقت نہيں رکھتا توپھر دس روزے رکھے اورپھر سرمنڈاوئے یا بال چھوٹے کروا کرحلال ہوجائے ۔
دیکھیں : تحفۃ الاخوان باجوبۃ مھمۃ تتعلق بارکان الاسلام ۔
اوراگر وہ بچی بالغ نہيں ہوئي تھی توبعض اہل علم نے یہ اختیارکیا ہے کہ : نہ توآپ پر اورنہ ہی اس پر کچھ لازم آتا ہے ، اوروہ بچے کے احرام کوپورا کرنے کی عدم تکمیل کی طرف گئے ہیں ، وہ اس لیے کہ بچہ اہل التزام میں سے نہیں اوراس لیے بھی کہ وہ سب لوگوں کے لیے نرمی اورشفقت کا باعث ہے ، جبکہ یہ ہوسکتا ہے کہ بچے کا ولی یہ خیال کرتا ہوکہ اس کا احرام باندھنا آسان سا کام ہے لیکن بعد میں اسے یہ علم ہو کہ معاملہ تواس کے خلاف ہے ۔
احناف ، اورابن حزم کا قول یہی ہے ، اورمتاخرین میں سے شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی اختیار کیا ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد