اگر كسى شخص كے پاس جھاد كا سفر كرنے كے ليے مال نہ ہو اور وہ مقروض بھى ہو تو كيا پھر بھى اس پر جھاد فرض ہے؟
جب اس شخص كو كچھ مال مل بھى جائے اور اس وقت جھاد كى بھى ضرورت ہو تو كيا اسے قرض ادا كرنا چاہيے يا جھاد كے ليے نكل جائے ؟
كيا مقروض ہونے كے باوجود جھاد پر چلا جائے ؟
سوال: 38164
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جب معروف اورمعلوم حالتوں ميں سے كسى بھىحالت ميں جھاد فرض عين ہو تو مقروض شخص بھى جھاد پر نكلے گا اور اسے قرض خواہ سے اجازت لينے كى بھى ضرورت نہيں ہے.
اور اگر جھاد فرض كفايہ ہو، مثلا: دشمن كا پيچھا كرنا، تو اس حالت ميں مقروض شخص كا قرض خواہ كى اجازت كے بغير جھاد پر جانا جائز نہيں ہے، اگر تو وہ اسے اجازت دے دے تو مقروض شخص جھاد پر نكلے، اور اگر اجازت نہيں ديتا تو جھاد پر نہ جائے.
ليكن اگر وہ جھاد پر جانے سے قبل اپنے پيچھے قرض ادا كرنے كے ليے رقم يا كوئى رہن چھوڑے، يا كسى كو ضامن بنا دے تو پھر قرض خواہ كى اجازت حاصل كرنا لازم نہيں ہے.
جھاد كا حكم، اور جھاد كب فرض عين، اور كب فرض كفايہ ہوتا ہے، اس كى تفصيل اور حكم جاننے كے ليے سوال نمبر (34830 ) كا جواب ديكھيں.
مغنى ميں ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اور جس كسى پر فى الحال يا كچھ مدت بعد والا قرض ہو اس كے ليے قرض خواہ كى اجازت كے بغير جھاد پر جانا جائز نہيں، ليكن اگر وہ قرض كى ادائيگى كے مال، يا پھر وكيل بنا كر، يا كوئى چيز رہن ركھ كر جا سكتا ہے، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى عنہ كا يہ قول ہے….
اس كى دليل يہ ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر ميں صبر كرتے ہوئے اللہ تعالى سے اجروثواب كى نيت ركھے اللہ تعالى كے راستے ميں قتل ہو جاؤں تو كيا ميرے گناہ مٹا ديے جائيں گے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جى ہاں، سوائے قرض كے، كيونكہ جبريل عليہ السلام نے ابھى ابھى مجھے يہ كہا ہے”
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ جھاد كا مقصد شھادت كا حصول ہے، جسے نفس حاصل كرتا ہے، اور اس كے فوت ہو جانے سے حق بھى فوت ہو جاتا ہے.
ليكن جب اس پر جھاد فرض عين ہو جائے تو پھر قرض خواہ كى اجازت حاصل كرنا ضرورى نہيں، كيونكہ اس كا تعلق فرض عين كے ساتھ قائم ہے، لھذا وہ اس كے ذمہ ميں پائى جانے والى چيز پر مقدم ہو گا، جس طرح كہ باقى فرائض ہيں….
اور اگر وہ قرض كى ادائيگى كے ليے رقم چھوڑ كر جائے يا كسى كو ادائيگى كا وكيل بنا دے، تو مقروض شخص بغير اجازت كے جھاد پر جا سكتا ہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ادائيگى چھوڑ كر جانے والے كے بارہ ميں يہى بيان كيا ہے.
كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ كے والد عبد اللہ بن حرام رضى اللہ تعالى عنہ احد كى لڑائى ميں شامل ہوئے تو ان پر بہت زيادہ قرض تھا، اور وہ معركہ ميں شہيد ہو گئے تو ان كا قرض ان كے بيٹے جابر رضى اللہ تعالى عنہ نے ادا كيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كا علم تھا ليكن اس كے باوجود انہوں نے اس كى مذمت نہيں فرمائى، اور نہ ہى ان كے اس عمل كو برا جانا اور اس كا انكار كيا بلكہ اس كى تعريف ميں يہ فرمايا:
” فرشتوں نے اپنے پروں سے اس پر اس وقت تك سايہ كيے ركھا جب تك تم لوگوں نے اسے اٹھايا ”
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے بيٹے جابر رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:
” كيا تو نے محسوس كيا اور تجھے علم ہے كہ اللہ تعالى نے تيرے باپ كو زندہ كر كے اس سے آمنے سامنے بات چيت كى” اھـ كمى بيشى كے ساتھ
ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 13 / 28 ).
اور الموسوعۃ القھيۃ ميں ہے كہ:
ليكن جب جھاد فرض عين ہو جائے تو مقروض كا قرض خواہ سے اجازت لينے كے بارہ ميں فقھاء كرام كے ہاں كوئى اختلاف نہيں.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 135 ).
دوم:
اور اگر مقروض كے پاس اتنا مال ہو جس سے قرض ادا ہو سكے، تو كيا جھاد پر جانا مقدم ہو گا يا قرض كى ادائيگى تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
جب فرض كفايہ ہو تو اس حالت ميں قرض كى ادائيگى مقدم كى جائے گى.
اور اگر جھاد فرض عين ہو تو اس كى دو حالتيں ہيں:
1 – جب ميدان جنگ ميں ہونے يا پھر دشمن وطن كا گھيراؤ كرنے كى صورت ميں جھاد فرض عين ہو تو اس حالت ميں جھاد مقدم ہو گا.
2 – جب حكمران اور امام كى جانب سے جھاد كے ليے نكلنے كے مطالبہ كى بنا پر جھاد فرض عين ہو تو اس حالت ميں قرض كى ادائيگى مقدم ہو گى.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ” الاختيارات ” ميں كہا ہے كہ:
” مجھ سے ايسے مقروض شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس كے پاس قرض كى ادائيگى كے ليے رقم ہے اوراس پر جھاد بھى فرض عين ہو چكا ہو تو اس كا كيا ہو گا؟
ميں نے جواب ديا:
واجبات ميں سے كچھ ايسى اشياء ہيں جو قرض كى ادائيگى پر مقدم ہوتى ہيں مثلا: اپنے آپ اور بيوى فقير بچے كا خرچ.
اور اس ميں كچھ ايسے بھى ہيں جن پر قرض كى ادائيگى مقدم ہوتى ہے، مثلا حج اور كفارہ وغيرہ كى عبادات.
اور اس ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو اس پر مقدم ہوتے ہيں ليكن اگر اسے طلب كيا جائے تو پھر نہيں، مثلا فطرانہ.
اگر تو جھاد ضرر و نقصان دور كرنے كے ليے فرض عين ہوا ہو، مثلا جب وہ دشمن كے مقابلہ ميں آجائے، يا ميدان جنگ ميں ہو، تو اس حالت ميں اسے قرض كى ادائيگى پرمقدم كيا جائے گا، مثلا نفقہ.
اور اگر جھاد امام كے كہنے پر فرض عين ہوا ہو تو پھر قرض كى ادائيگى اولى ہے.
لھذا امام كے لائق نہيں كہ وہ مقروض شخص سے مستغنى ہوتے ہوئے بھى اسے جھاد ميں طلب كرے، اسى ليے ميں كہتا ہوں كہ:
اگر بھوكوں كو كھلانے سے مال كم ہو اور انہيں پورا نہ آئے اور اس جھاد سے جس كے نہ كرنے ميں نقصان ہوتا ہو اس حالت ميں جھاد كو مقدم كيا جائے گا، اگرچہ وہ بھوكا ہى مر جائے…..
اور ميں يہ بھى كہتا ہوں كہ:
اگر مقروض لوگ اس مال كے ساتھ جھاد كرتے ہوں جس سے وہ قرض كى ادائيگى مكمل كر سكيں، تو واجب يہ ہے كہ وہ ادائيگى كريں، تا كہ دونوں مصلحتيں ادائيگى اور جھاد حاصل ہو سكيں.
ميں نے جو كچھ لكھا ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالى كى نصوص بھى اسى كى موافقت ميں ہيں. اھـ
ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 308 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب