اگر خطرے يا حادثے كے سائرن بجنے لگيں تو كيا نماز توڑنى جائز ہے ؟
ضرورت كى بنا پر نماز توڑ دينا
سوال: 3878
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو كوئى بڑا يا اہم حادثہ پيش آ جائے تو نماز توڑنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر معاملہ بالكل چھوٹا سا ہو اور اس كا تدارك ممكن ہو تو نماز توڑنى جائز نہيں ہے.
اہل علم كا كہنا ہے كہ:
كسى غافل شخص كو ہلاكت سے بچانے كے ليے نماز توڑنى واجب ہے اس كا معنى يہ ہے كہ: اگر آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ نے ديكھا كہ ايك بيٹھے ہوئے شخص كى طرف سانپ آ رہا ہے اور شخص كو علم بھى نہيں اور وہ سانپ اس كى طرف ہى جا رہا ہے تو آپ پر نماز توڑ كر اسے بتانا واجب ہے تا كہ وہ اسے ڈس نہ لے اور اس وجہ سے اس كى وفات ہو جائے.
يا آپ كسى نابينے اور كمزور نظر شخص كو ديكھيں كہ وہ آپ كے آگے چل رہا ہے، اور آپ نماز ادا كر رہے ہيں، اور وہ شخص كنويں كى طرف جا نكلے اور آپ كو خدشہ ہو كہ وہ نابينا شخص كہيں اس ميں نہ گر پڑے، تو آپ كے ليے اسے متنبہ كرنا اور اسے اس ہلاكت سے بچانا واجب ہے، چاہے اس كى بنا پر آپ كو نماز توڑنى بھى پڑے، يا اسى طرح آگ وغيرہ كى بنا پر.
ليكن اگر خطرے كے سائرن كسى چھوٹے سے معاملہ ميں بجائيں جائيں جس كا تدارك كرنا ممكن ہو، اور اس كے ضائع ہونے كا خدشہ نہ ہو تو نماز مكمل كرنے سے قبل توڑنى جائز نہيں، كيونكہ آپ كے ليے بغير كسى كو ضرر حاصل ہوئے اس معاملہ سے نپٹنا اور اس كا تدارك كرنا ممكن ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد