میرا مسلمان خاندان سے تعلق ہے اورعقیدہ اسلامیہ پر ہی میری پرورش ہونے کے باوجود میری زندگی میں کئي نشیب وفراز آئے جنہیں میں اندھیرا اورجاھلیت شمار کرتا ہوں ، اس مرحلہ میں مجھ سے کچھ برس تک جاہلیت کے کام سرزد ہوتے رہے ۔
لیکن الحمد للہ اللہ تعالی نے مجھے ھدایت سے نوازا اورمجھے پھر صراط مستقیم پر واپس لوٹا دیا ۔
اسی دوران میرے ایک عیسائی لڑکی سے تعلقات بھی رہے ، اوراب اللہ تعالی کے چاہنے سے اسلام بھی قبول کرچکی ہے اوراب ہم شادی کرنے کی تیار کررہے ہيں ۔
لیکن ہمیں ایک مشکل درپیش ہے کہ وہ ایک عیسائي دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اوراس کا باپ پادری ہے ، جب اس کے خاندان کو ہمارے تعلقات کا علم ہوا تو انہوں نے ہمارے تعلقات ختم کرنے میں ہر قسم کے وسائل استعمال کیے حالانکہ ہم نے انہیں اس کے اسلام کا بھی نہیں بتایا تھا ۔
اب ہمارے یہ تعلقات اس درجہ تک جا پہنچے ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے لڑنے اورمیرے ساتھ بھاگنے پر بھی تیار ہے ، باوجود اس کے کہ ہمیں اس معاملہ میں بہت ساری صعوبات کا بھی علم ہے ، لیکن ہم ایک دوسرے سے بہت زيادہ محبت کرتے ہیں ، مجھے یہ بھی علم ہے کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوسکتا ، جوکہ میرے علم کے مطابق عورت کے خاندان سے ہونا چاہیے ۔
یہاں میراپہلا سوال یہ ہے کہ : کیا اس کے خاندان کے بغیر ہماری شادی کو سوچنا شریعت اسلامیہ کے موافق ہے ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ : اگر ایسا کرنا جائز ہے تو پھر عورت کا ولی کون ہوگا ، کیونکہ اس کے خاندان میں سے کوئي بھی اس شادی پر رضامند نہيں ؟
مسلمان ہونے والی نصرانی عورت کا ولی
سوال: 389
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول :
ہم اللہ تعالی جو کہ صاحب فضل واحسان کامالک ہے کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کو گمراہی اورضلالت اور حیرانی وپریشانی اورضیاع کے دور سے نکال کردوبارہ حق کی طرف لوٹایا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہی جسے چاہتا ہے ھدایت نصیب کرتا ہے اس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ اللہ تعالی کی نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے اللہ تعالی کے حقوق ادا کریں اورایسے کاموں سے اجتناب کریں جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے اورجواس کے غضب کا باعث بنتے ہیں ۔
اوراس کے ساتھ ساتھ آپ کو ہرچيز سے زيادہ محبوت یہ ہونا چاہیے کہ آپ جوعمر گمراہی ضلالت میں ضائع کرچکے ہیں اس کا استدراک کرتے ہوئے اعمال صالحہ کرنے کی کوشش کریں اورخیر وبھلائي کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تا کہ پچھلے وقت کا تدارک کیا جاسکے ۔
دوم :
جب کہ وہ عورت اسلام قبول کر چکی ہے جس پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے تواب اس کا کوئي بھی کافر رشتہ دار ولی نہیں بن سکتا ، کیونکہ کسی مسلمان کی ولایت کافر کو نہیں ملتی ، اگر تو وہ ایسے ملک میں رہائش پذیر ہے جہاں پر مسلمان حکمران ہو تو وہ اس کا ولی بنے گا کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ، اورجس کا ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہوگا ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1880 ) مسند احمد ، دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7556 ) ۔
لیکن اگر مسلمان حکمران نہيں تو پھر اس مسئلہ میں مسلمانوں کے مرجع اورامام یا پھر جس کی بات تسلیم کی جاتی ہے مثلا اسلامک سینٹر کے مدیر یا امام مسجد اورخطیب وغیرہ اس کا ولی ہوگا جو اس کانکاح کرے ۔
آپ مزید تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 2127 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات