اگر كوئى شخص سوئے اور اسے شك ہو كہ آيا وہ گہرى نيند سويا تھا يا نہيں تو كيا اس سے اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا ؟
اگر كسى كو گہرى نيند ميں شك ہو
سوال: 39180
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب كوئى شخص سويا ہو اور اسے شك ہو كہ آيا اس نيند سے اس كا وضوء ٹوٹا ہے يا نہيں ؟
تو اس سے اس كا وضوء نہيں ٹوٹےگا.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر كسى كو شك ہو كہ وہ سويا تھا يا كہ اسے اونگھ آئى تھى ؟ دونوں ميں سے كچھ ضرور ہوا ہو تو اس كا وضوء نہيں ٹوٹےگا، امام شافعى رحمہ اللہ كتاب الام ميں كہتے ہيں:
" احتياطى اسى ميں ہے كہ وہ وضوء كر لے …. پھر كہتے ہيں: اگر اسے نيند كا يقين ہو اور شك ہو كہ آيا ممكن تھا يا نہيں ؟ تو اس پر وضوء نہيں، صاحب " البيان " اور دوسروں نے اسى طرح بيان كيا ہے، اور صحيح بھى يہى ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 17 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كا يہ كہنا كہ آيا وہ ممكن تھا يا نہيں سے مراد يہ ہے كہ آيا اس كى مقعد زمين پر لگى ہوئى تھى تو اگر اس كى مقعد زمين پر ٹكى ہوئى تھى تو اس بنا پر اس كا وضوء نہيں ٹوٹا، سوال نمبر ( 36889 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ صحيح يہى ہے كہ گہرى نيند سے وضوء ٹوٹتا ہے، اور اگر گہرى نہ ہو بلكہ نيند تھوڑى ہو تو اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا.
صرف نواقض وضوء كے حصول كے شك سے وضوء نہيں ٹوٹتا اس كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
عباد بن تميم اپنے چچا سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں: ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے شكايت كى كہ وہ نماز ميں كچھ نہ كچھ پاتا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ اس وقت تك نماز نہ چھوڑے جب تك كہ آواز نہ سن لے، يا پھر بدبو نہ پا لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 137 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 361)
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر كسى كے پيٹ ميں كوئى گڑبڑ ہو اور اسے يہ اشكال پيدا ہو جائے كہ آيا اس سے كچھ خارج ہوا ہے يا نہيں ؟ تو وہ مسجد سے اس وقت تك نہ نكلے جب تك كہ وہ آواز نہ سن لے يا پھر بدبو نہ پا لے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 362 ).
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" حتى كہ وہ آواز سن لے، يا پھر بدبو پا لے "
اس كا معنى يہ ہے كہ: ان دونوں چيزوں ميں سے كسى ايك كے وجود كا علم ہو جائے، اور مسلمانوں كا اجماع ہے كہ اس ميں آواز سننا اور سونگھنا شرط نہيں.
اور يہ حديث دين اسلام كے عظيم اصولوں ميں سے ايك اصول اور فقھى قواعد ميں سے ايك قاعدہ ہے، وہ يہ كہ: اشياء كو اس كى اصل پر باقى ركھا جائيگا جب تك كہ اس كے خلاف يقين نہ ہو جائے، اور اس پر پيدا ہونے والا شك كوئى نقصان اور ضرر نہيں دےگا.
اس باب كا مسئلہ جس ميں حديث وارد ہوئى ہے بھى اسى ميں شامل ہے كہ جسے طہارت اور وضوء كا يقين ہو اور وضوء ٹوٹنے كا شك پيدا ہو جائے تو اسے طہارت باقى رہنے كا حكم لگايا جائيگا، اور دوران نماز يا نماز كے باہر شك پيدا ہونے ميں كوئى فرق نہيں، ہمارا مذہب بھى يہى ہے اور سلف اور خلف ميں سے جمہور علماء كرام كا مسلك بھى يہى ہے…
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ:
شك ميں يہ كوئى فرق نہيں كہ وضوء ٹوٹنے يا نہ ٹوٹنے ميں دونوں احتمال برابر ہوں، يا پھر ان ميں كوئى ايك راجح ہو، يا اس كے ظن ميں ايك احتمال غالب ہو، اس پر اس ميں سے كسى بھى حالت ميں وضوء نہيں ہے.
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ:
اس كے ليے احتياطاً وضوء كرنا مستحب ہے " انتہى مختصرا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات