0 / 0

ميت كو خوشبو لگانا اور كفن كو دھونى دينا

سوال: 39201

اگر كوئى عورت فوت ہو جائے تو كيا اسے بھى مرد كى طرح خوشبو لگائى جائيگى، اور كيا مرد اور عورت كے كفن كو بھى خوشبو لگائى جائيگى يا كہ خوشبو صرف مردوں كے ساتھ خاص ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

كفن كو خوشبو لگانا مستحب ہے، چاہے ميت مرد ہو يا عورت سنت نبويہ كى صحيح احاديث سے اس كے دلائل ملتے ہيں:

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان عورتوں كو حكم ديا تھا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى كو غسل دے رہى تھيں كہ وہ آخرى غسل ميں كافور يا كافور ميں سے كچھ شامل كر ليں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1253 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 939 ).

كافور خوشبو كى ايك قسم ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:

" كہا جاتا ہے كہ: كافور استعمال كرنے ميں حكمت يہ ہے كہ: يہ جگہ كو معطر كرتى ہے كيونكہ وہاں فرشتوں نے حاضر ہونا ہے يہ خوشبو ہونے كے ساتھ اس ميں خشك اور ٹھنڈا كرنے كا مادہ بھى پايا جاتا ہے اور قوت نفوذ اور بدن كو سخت كرنے كى بھى صلاحيت پائى جاتى ہے، اور اسى طرح بدن سے كيڑے مكوڑے دور كرنے كى صلاحيت بھى، اور فضلہ كے پھيلنے ميں بھى ركاوٹ كا باعث ہے، اور جلد فاسد ہونے سے بچاؤ بھى، اور اس ميں سب سب سے اچھى اور بہتر خوشبو ہے.

غسل كے آخر ميں كافور شامل كرنے كا راز يہى ہے، اور اگر اسے شروع ميں شامل كر ديا جائے تو پانى كى بنا پر اس كا اثر ہى زائل ہو جائے اور كيا كستورى كافور كى جگہ لے سكتى ہے ؟

اگر تو صرف خوشبو ہونے كى نظر سے ديكھا جائے تو جى ہاں يہ اس كے قائم مقام بن سكتى ہے، ليكن اس كے علاوہ كسى اور غرض سے نہيں، اور يہ كہا جا سكتا ہے: جب كافور نہ ملے تو اس كے علاوہ كوئى اور چيز اس كے قائم مقام بن سكتى ہے چاہے اس ميں كافور كى ايك خاصيت بھى پائى جاتى ہو " انتہى.

اور مسلم كى شرح ميں امام نووى كہتے ہيں:

" اس حديث ميں يہ دليل ہے كہ غسل ديتے وقت آخرى بار ميں كافور شامل كيا جائے، ہمارے ہاں يہ چيز متفق عليہ ہے، اس حديث كى بنا پر امام مالك، امام احمد اور جمہور علماء كرام كا قول يہى ہے؛ اور اس ليے بھى كہ اس سے ميت خوشبودار ہو جاتى ہے، اور اس كا جسم سخت اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے، اور جلدى خراب نہيں ہوتا " انتہى.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميت كو خوشبو كى دھونى دو تو اسے تين بار دھونى دو "

مسند احمد حديث نمبر ( 14131 ) امام نووى رحمہ اللہ نے المجموع ميں اس كى سند كو صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 278 ) ميں صحيح كہا ہے.

اور اس كا معنى يہ ہے كہ: ميت كو خوشبو لگاؤ، اور ميت كا اطلاق مذكر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے.

اس سے مراد كفن كو دھونى دينا ہے، سنن بيھقى ميں ہے كہ:

يہ حديث ان الفاظ سے بھى مروى ہے كہ:

" ميت كے كفن كو تين بار دھونى دو "

ديكھيں: سنن بيھقى ( 3 / 568 ).

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 1 / 307 ).

اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنے گھر والوں سے كہا كہ:

جب ميں فوت ہو جاؤں تو ميرے كپڑوں كو دھونى دينا، پھر مجھے حنوط لگانا "

مؤطا امام مالك حديث نمبر ( 528 ) سنن الكبرى للبيھقى ( 3 / 568 ).

المنتقى ميں ہے كہ:

حنوط اسے كہتے ہيں جو ميت كے بدن اور اس كے كفن ميں خوشبو كستورى، اور عنبر، اور كافور لگاتے ہيں، اور اس سب سے غرض خوشبو ہے نہ كہ رنگ؛ كيونكہ اس سے مقصود وہى خوشبو ہے ہے نہ كہ رنگ سے خوبصورتى اور جمال، جيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے " انتہى.

اور يہ حكم ( ميت كو خوشبو لگانا مستحب ہے ) حج اور عمرہ كے احرام والے محرم شخص كے ليے نہيں ہوگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عرفات ميں احرام كى حالت ميں فوت ہونے والے شخص كے متعلق فرمايا تھا:

" اور اسے خوشبو مت لگاؤ "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1851 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1206 )، اور ايك روايت ميں ہے:

" اور خوشبو اس كے قريب بھى كرو "

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" احرام كى حالت ميں فوت ہونے والے مرد اور عورت كے علاوہ باقى سب كے كفن كو دھونى دينا مستحب ہے "

ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 156 ).

دوم:

اور ميت كو خوشبو لگانے كا طريقہ يہ ہے كہ: اس كے سجدہ كرنے والے اعضاء پر شرف كى وجہ سے خوشبو ركھى جائے، اور ان جگہوں پر جہاں ميل ہوتى ہے مثلا گھٹنوں كى اندر والى جانب، اور اگر سارى ميت كو ہى خوشبو لگائى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

" سجدہ والى جگہوں پر كافور ركھا جائے "

سنن البيھقى ( 3 / 568 ).

وہ جگہيں يہ ہيں: پيشانى اور ناك، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں، كيونكہ وہ ان اعضاء پر سجدہ كيا كرتا تھا تو زيادہ عزت و تكريم كے ليے مخصوص ہوئے.

ديكھيں: شرح فتح القدير ( 2 / 110 ).

اور ابن قدامہ كہتے ہيں:

" اور حنوط ( وہ خوشبو جو ميت كے بنائى جاتى ہے ) جوڑوں پر مثلا دونوں گھٹنوں كى اندر والى طرف، اور بغلوں كے نيچے ركھى جائيگى كيونكہ يہاں ميل كچيل جمع ہوتى ہے، اور شرف كى بنا پر سجدہ والى جگہ پر ركھى جائيگى، اور اگر سارے بدن كو خوشبو لگا دى جائے تو كوئى حرج نہيں " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ المقدسى ( 3 / 388 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا ميت كے سارے جسم كو خوشبو لگانا ثابت ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جى ہاں، بعض صحابہ كرام سے وارد ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 97 ).

سوم:

اگر خاوند كے فوت ہونے كى عدت گزارنے والى عورت فوت ہو جائے تو كيا اسے خوشبو لگائى جائيگى ؟

امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں لكھتے ہيں:

" صحيح يہ ہے كہ اسے خوشبو لگانا حرام نہيں، كيونكہ اس كے ليے عدت كى حالت ميں خوشبو لگانى حرام ہے، تا كہ اسے نكاح كى دعوت نہ دى جائے، اور موت كى بنا پر يہ عذر زائل ہو چكا ہے " اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 164 – 165 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android