میں ایک بینک کا مقروض ہوں ، اورعمرہ کرنا چاہتاہوں ، مجھے علم ہے کہ حج یا عمرہ سے قبل مجھ پرقرض کی ادائيگي واجب ہے ، توکیا آپ مجھے اس کے بارہ میں کوئي صحیح اسلامی طریقہ کی راہنمائي کرسکتے ہیں ؟
مقروض ہوتے ہوئے حج کرنا چاہتا ہے
سوال: 3974
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول :
اگرتویہ قرض سودی ہے تویہ حرام اورکبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ اورسات ہلاک کرنے والی اشیاء میں سے ایک ہے ، اسے توساری امتوں نے حرام قراردیا ہے حتی کہ اغریق جوبتوں کے پجاری ہیں بھی اسے حرام قراردیتے ہيں ان میں سے ایک جس کانام صولون ہے کہتا ہے :
مال توبانجھ مرغی کی طرح ہے لھذا درھم درھم کوجنم نہيں دیتا ۔
اورعیسائیوں کے عقیدہ میں ہے کہ : جب سود خور فوت ہوجائے تواسے کفن نہيں دیا جائے گا ۔
حتی کہ یھودی بھی سود کوحرام قراردیتے ہيں ، اوراسلام نے تواسے اس طرح حرام کیا ہے کہ کسی ایک کے لیے بھی اس کے حرام ہونے میں شک کی کوئي مجال نہيں چھوڑی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی حرمت کے بارہ میں فرمايا :
حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کوحلال اورسود حرام کیا ہے ، جوشخص اپنے پاس آئي ہوئي اللہ تعالی کی نصیحت سن کررک گیا اس کے لیے وہ ہے جوگزرا اوراس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اورجوپھر دوبارہ ( حرام کی طرف ) لوٹا وہ جہنمی ہے ، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے البقرۃ ( 275 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نےفرمایا :
اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اورجوسود باقی رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو ، اگرتم سچ مچ ایمان والے ہو البقرۃ ( 278 ) ۔
ابوجحیفہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خون اورکتے کی قیمت اورلونڈکی کمائي سے منع فرمایا اورگودنے اورگدوانے والی اورسودکھانے اورکھلانے والے اورمصور پرلعنت فرمائي ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2123 ) ۔
اورعبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اورکھلانے والے پرلعنت فرمائي ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1597 ) ۔
اورابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( سات ہلاک کرنے والی اشیاء سے اجتناب کریں ، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کونسی اشیاء ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، اوراس نفس کوناحق قتل کرنا جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، سود کھانا ، اوریتیم کا مال کھانا ، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کربھاگنا ، پاکدامن غافل مومن عورتوں پرتہمت لگانا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2615 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 89 ) ۔
سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
میں نے آج رات دوآدمی دیکھے وہ میرے پاس آئے اوروہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے ، ہم چلے اورایک خون کی نہر کے پاس آئے اس میں ایک شخص تھا اورکنارے پرایک شخص کھڑا تھا اس کے آگے پتھر رکھے تھے ، وہ شخص جونہرمیں تھا آیا اورباہرنکلنے کی کوشش کی تواس شخص نے اس کے منہ میں پتھر دے مارا اوراسے وہیں واپس کردیا جہاں وہ تھا ، توجب بھی وہ شخص باہر نکلنے کی کوشش کرتا وہ اس کے منہ میں پتھردے مارتا اوروہ اپنی جگہ واپس چلا جاتا ، تومیں نے کہا یہ کیا ہے ، وہ کہنے لگا وہ جے آپ نہرميں دیکھ رہے ہیں وہ سودخور ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1979 ) ۔
لھذا آپ پراس عمل سے توبہ کرنی واجب ہے ، لیکن اگریہ قرض قرضہ حسنہ ہے اوراس میں سود داخل نہيں توپھر اس میں کوئي حرج نہيں ہے ۔
دوم :
اورحج کے متعلق یہ ہے کہ: جوشخص ہاتھ کی تنگي کی بنا پراپنے آپ پرخرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس پرحج واجب نہيں ہوتا ، لیکن ان دونوں میں سے اولی اوبہتر فریضہ حج کی ادائيگي ہے یا قرض کی ادائيگي ؟
اس میں راجح یہ ہے کہ قرضہ کی ادائيگي اولی اوربہتر ہے اس لیے کہ مقروض کے لیے حج کرنا لازم نہیں کیونکہ حج کی شرائط میں استطاعت شامل ہے ۔
لھذا اگرآپ کا حج قرض کے ساتھ متعارض ہوتا ہے توآپ قرضہ کی ادائيگی مقدم کریں ، لیکن اگراس میں تعارض نہيں آتا مثلا ادائيگي کے وقت میں ابھی تاخیر ہے یا قرض خواہ اپنے قرض پرصبر کررہا ہے تواس حالت میں حج اورعمرہ کرنے میں کوئي حرج نہيں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
تنگ دست مقروض کواگرکوئي دوسرا شخص حج کروائے تواس کے لیے حج کرنا جائز ہے ، اوراس میں قرضہ کےحق کا ضياع نہيں ہوگا ، یاتواس وجہ سے کہ وہ کمائي سے ہی عاجز ہے ، اوریا قرض خواہ کے غائب ہونے کی بنا پرکمائي سے اسے ادائيگي کرنی ممکن نہيں ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 26 / 16 ) ۔
اوریہ سب کچھ اس وقت ہے جب مکمل استطاعت ہو اوراگرآپ ایک سے زائد لوگوں کے مقروض ہوں توقرض کی ادائيگي کا وقت آنے اورقرض خواہ کے مطالبہ پرقرض کی ادائيگي کرنے کے ساتھ زاد راہ اورسواری اورسفر کی ضروریات بھی میسر ہوں اوراپنے اہل وعیال یا پھرجن کا آپ پرخرچہ واجب ہے اس کے انتظام کرنے کےبعد ہوگا ۔
وہ اس طرح کہ آپ اہل وعیال کےلیے ضروریات زندگي مہیا کرکے جائيں ، اوراگرآپ ایسانہيں کرینگے توآپ گنہگار ہيں اوراللہ تعالی نے آپ کے ذمہ جن کی دیکھ بھال لگائي ہے آپ نے اسے ضائع کردیا ہے ۔
خیثمۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ان کا وکیل اورخازن آیا تووہ کہنے لگے : کیا تونے غلاموں کوان کی غذا مہیا کردی ہے ؟ اس نے جواب دیا نہيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بندے کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جن کا خرچہ اس کے ذمہ ہے اس کا خرچہ بند کردے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 996 ) ۔
اورابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مسلمان کے کے لیےاتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ جسے خرچہ دیتا تھا اسے ضائع کردے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1692 ) ۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب