كيا تيمم كر كے جنابت ختم كرنى جائز ہے ؟
عذر كى حالت جنابت سے تيمم كرنا جائز ہے
سوال: 40204
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر پانى استعمال نہ كرنے كا كوئى شرعى عذر مثلا پانى نہ ملے، يا بيمارى وغيرہ كى بنا پر پانى استعمال كرنا مشكل ہو تو پھر تيمم پانى اور غسل كے قائم مقام ہو گا، چنانچہ جنبى شخص اس حالت ميں تيمم كر كے نماز ادا كرلے، اور جب اسے پانى ملے يا عذر زائل ہو جائے تو غسل كرنا ہوگا.
اس كے دلائل قرآن و مجيد ميں موجود ہيں:
1 – اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہو تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تك دھوؤ اور اگر تم جنبى ہو تو غسل كرو، اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى قضائے حاجت كر كے آئے يا تم نے بيويوں سے جماع كيا ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو، اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھ كا مسح كرو المآئدۃ ( 6 ).
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ان سب اسباب كى بنا پر ہميں طہارت صغرى اور طہارت كبرى اور تيمم كرنے كا حكم ديا ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 396 ).
طہارت صغرى سے مراد وضوء، اور طہارت كبرى سے مراد غسل كرنا ہے.
2 – امام بخارى رحمہ اللہ نے دو مقام پر درج ذيل روايت بيان كى ہے:
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو لوگوں سے دور عليحدہ بيٹھے ہوئے ديكھا جس نے نماز ادا نہ كى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يا فلاں تمہيں لوگوں كے ساتھ نماز ادا كرنے سے كس چيز نے منع كيا ؟
تو اس نے جواب ديا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں جنبى ہوں اور پانى نہيں ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
آپ كو مٹى استعمال كرنى چاہيے، كيونكہ تمہيں يہ كفائت كرتى ہے "
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو پانى مل گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جبنى شخص كو پانى كا ايك برتن دے كر فرمايا: جاؤ اپنے اوپر انڈيل لو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 344 ) اور ( 348 ).
يہ اس بات كى دليل ہے كہ تيمم سے بھى طہارت ہوتى ہے، اور اگر پانى نہ ملے تو پھر تيمم كرنا واجب ہے، اور جيسے ہى پانى مل جائے تو پانى استعمال كرنا واجب ہوگا اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو اپنے اوپر پانى انڈيلنے كا حكم ديا تھا، حالانكہ اسے دوسرى بار جنابت نہيں ہوئى تھى "
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 239 ).
3 – امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے كہ ايك شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں جنبى ہوں اور پانى نہيں مل رہا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے: تم نماز ادا نہ كرو، تو عمار رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
يا امير المؤمنين كيا آپ كو ياد نہيں كہ ميں اور آپ دونوں ہى ايك لشكر ميں تھے اور جنبى ہو گئے اور ہميں پانى نہ ملا تو آپ نے تو نماز ادا نہ كى، ليكن ميں نے مٹى ميں الٹ پلٹ ہونے كے بعد نماز ادا كر لى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" بلكہ آپ كو صرف اتنا ہى كافى تھا، كہ آپ اپنے دونوں ہاتھ زمين پر مارتے اور پھر ان ميں پھونك كر اپنے چہرے پر پھير ليتے "
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: عمار اللہ تعالى سے ڈرو! تو عمار رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اگر آپ چاہتے ہيں تو ميں يہ حديث بيان نہيں كرتا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ہم تجھے اسى پر ركھتے ہيں جس پر تم ہو.
اور ايك روايت ميں ہے: عمار رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے امير المومنين آپ كو اللہ تعالى نے جو مجھ پر حق ديا ہے اگر آپ اس كى بنا پر چاہتے ہيں تو ميں يہ حديث كسى كو بيان نہيں كرتا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 368 ).
چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ يہ واقعہ بھول چكے تھے، اسى ليے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" اے عمار اللہ تعالى سے ڈرو! "
اس كا معنى يہ ہے كہ: عمر رضى اللہ تعالى عنہ عمار رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ كہ رہے ہيں كہ: عمار جو كچھ تم بيان كر رہے ہو اور جو ثابت كرنا چاہتے ہو اس ميں اللہ تعالى سے ڈرو، شائد تم بھول رہے ہو يا معاملہ ميں شبہ پيدا ہو گيا ہے.
اور عمار رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ قول كہ:
" اگر آپ چاہتے ہيں كہ ميں اس حديث كو بيان نہ كروں "
واللہ اعلم اس كا معنى يہ ہے كہ: اگر آپ ميرى اس حديث بيان نہ كرنے ميں كوئى مصلحت سمجھتے ہيں تو ميں حديث بيان نہيں كرتا، كيونكہ معصيت كے علاوہ ہر معاملہ ميں آپ كى اطاعت و فرمانبردارى مجھ پر واجب ہے، اور اس مسئلہ ميں جو سنت طريقہ تھا اس كى تبليغ اور علم ميں لانا يہ تو ہو چكا ہے، اور جب عمار رضى اللہ تعالى عنہ اس كے بعد حديث بيان نہ كريں تو علم چھپانے ميں وہ شامل نہيں ہوتے، كيونكہ انہوں نے ايك بار حديث بياني كر دى ہے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ اگر آپ اس حديث كو لوگوں ميں مشہور نہيں كرنا چاہتے تو ميں ايسا نہيں كرتا بلكہ اس حديث كو نادر ہى بيان كيا كرونگا " اھـ.
شرح مسلم للنووى.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ہم تجھے اسى پر ركھتے ہيں جس پر تم ہو "
" يعنى مجھے اس واقعہ كا ياد نہ رہنے كا مطلب يہ نہيں كہ يہ مسئلہ واقعى حقيقت نہيں، اس ليے مجھے كوئى حق حاصل نہيں كہ ميں آپ كو يہ حديث بيان كرنے سے منع كروں "
ديكھيں: فتح البارى لابن حجر.
4 – عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ غزوہ ذات السلاسل ميں ايك شديد سرد رات مجھے احتلام ہوگيا اور مجھے يہ خدشہ پيدا ہوا كہ اگر غسل كيا تو ہلاك ہو جاؤنگا، چنانچہ ميں نے تيمم كر كے اپنے ساتھيوں كو فجر كى نماز پڑھا دى.
انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے اس كا ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے عمرو كيا تم نے اپنے ساتھيوں كو جنابت كى حالت ميں ہى نماز پڑھا دى ؟ !
چنانچہ ميں نے آپ كے سامنے غسل ميں مانع سبب ركھا، اور كہنےلگا: ميں نے اللہ تعالى كا يہ فرمان سن ركھا تھا:
اور تم اپنے آپ كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ رحم كرنے والا ہے .
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے اور مجھے كچھ بھى نہ كہا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 334 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 1 / 589 ) ميں اس كى سند كو قوى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر جنبى شخص كو اپنى بيمار يا مرنے كا خدشہ ہو، يا پھر پياس لگنے كا ڈر ہو تو وہ تيمم كر لے، اور عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ كے متعلق بيان كيا جاتا ہے كہ انہيں ايك شديد سرد رات ميں احتلام ہو گيا تو انہوں نے تيمم كر ليا اور يہ آيت تلاوت كى:
اور اپنے آپ كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ رحم كرنے والا ہے .
چنانچہ اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں جھڑكا نہيں، اور نہ ہى ان پر سختى كى " اھـ.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى شخص كو احتلام، يا حلال يا حرام جماع كرنے كى بنا پر جنابت ہو جائے تو اسے غسل كر كے نماز ادا كرنا ہوگى، ليكن اگر پانى نہ ملنے يا پھر پانى استعمال كرنے كى بنا پر ضرر اور نقصان كا انديشہ ہو مثلا بيمارى بڑھ جائے، يا ہوا بہت زيادہ ٹھنڈى ہو، اور اگر غسل كرے تو اسے بيمار ہونے يا نزلہ و زكام كى شدت ہونے كا خدشہ ہو تو وہ تيمم كر كے نماز ادا كر لے، چاہے مرد ہو يا عورت اس ميں كوئى فرق نہيں، اسے نماز وقت سے تاخير كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں ہے " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 451 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا تيمم كرنا جنبى شخص سے غسل مكمل طور پر ساقط كر ديتا ہے، اور اس تيمم كے ساتھ ميں كتنى نمازيں ادا كر سكتا ہوں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" تيمم پانى كے قائم مقام ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى نے مسلمانوں كے ليے زمين مسجد اور پاكيزگى كا باعث بنائى ہے، اس ليے جب پانى نہ ملے، يا پھر كسى بيمارى وغيرہ كى بنا پر پانى استعمال كرنے سے عاجز ہو تو تيمم پانى كے قائم مقام ہو گا، اور تيمم اس وقت تك كافى ہے جب تك پانى نہيں ملتا چنانچہ جب بھى اسے پانى ملے تو اسے سابقہ غسل جنابت كرنا واجب ہے، اور اسى طرح جب مريض شفاياب ہو جائے، اور اللہ تعالى اسے عافيت سے نوازے تو وہ اس سابقہ جنابت سے غسل كرے گا جس سے اس نے تيمم كيا تھا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر كسى مسلمان شخص كو دس برس تك بھى پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى اس كے ليے طہارت ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: چنانچہ جب آپ كو پانى ملے تو اسے اپنى جلد سے لگاؤ "
اسے امام ترمذى رحمہ اللہ نے ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ سے، روايت كيا ہے، اور بزار نے بھى روايت كيا ہے، اور ابن قطان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا اور اسے صحيح قرار ديا ہے.
چنانچہ جب اسے پانى ملے تو وہ اپنى جلد كو تر كرے "
اس كا معنى يہ ہے كہ: جو كچھ ہو چكا ہے اس كے بعد وہ غسل كرے، اور پانى نہ ملنے كى بنا پر، يا پانى استعمال كرنے سے عاجز ہونے يا بيمارى كى بنا پر پانى استعمال نہ كر سكنے كى وجہ سے تيمم كر كے ادا كردہ پچھلى تمام نمازيں صحيح ہيں، حتى كہ وہ بيمارى ختم ہو جائے اور اسے شفا مل جائے، يا پھر پانى نہ ملنے كى صورت ميں جب پانى مل جائے تو اسے غسل كرنا ہوگا چاہے كتنى ہى دير بعد ملے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 201 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب