كيا ہوٹلوں ميں موجود مرغى اور گوشت كھانا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ مجھے معلوم ميں نہيں ہے كہ اسے شريعت اسلاميہ كے مطابق ذبح كيا گيا ہے يا نہيں ؟
وطنى مرغى كے ذبح كا طريقہ معلوم نہ ہونے والے كے ليے كھانے كا حكم
سوال: 40216
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كچھ لوگ آ كر كہنے لگے:
كچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہيں ہميں نہيں معلوم كہ آيا انہوں نے اس پر اللہ كا نام ليا ہے يا نہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم بسم اللہ پڑھو اور كھالو”
ميں كہتا ہوں: وہ لوگ ابھى كفر كے قريبى عہد سے تعلق ركھتے اور اسلام ميں نئے نئے داخل ہوئے تھے، انہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ نام ليں يا نہ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم خود بسم اللہ پڑھو اور پھر اسے كھا لو.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھانا مباح قرار ديا اگرچہ ہميں علم نہ ہو كہ اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہے يا نہيں، اور اسى طرح اگر ہميں يہ علم نہيں كہ آيا اسے صحيح طريقہ پر ذبح كيا گيا ہے يا نہيں تو پھر بھى كھانا مباح ہے، كيونكہ جب كوئى فعل كسى اہليت والے شخص سے صادر ہو تو وہ فعل اصلا صحيح اور نافذ ہوتا ہے ليكن اگر كوئى دليل ہو تو پھر نہيں.
اگر ہمارے پاس كسى مسلمان، يا يہودى يا نصرانى كا ذبح كيا ہوا گوشت آئے تو ہم اس كے متعلق يہ نہيں دريافت كرينگے كہ يہ كيسے ذبح ہوا ہے، اور نہ ہى يہ پوچھيں گے كہ كيا اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہے يا نہيں؟
جب تك اس كے حرام ہونے پر كوئى دليل قائم نہيں ملتى وہ گوشت حلال ہے، اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے آسانى ہے، وگرنہ ہمارے ليے تو بہت مشكل ہوتى كہ جب بھى كوئى ذبح كرنے والا ہميں گوشت پيش كرتا، ہم اس سے سوال كرتے: اسے ذبح كرنے والا كون ہے؟ كيا وہ نمازى ہے يا نہيں؟ كيا اللہ كا نام ليا گيا ہے يا نہيں ؟ كيا خون بہا ہے يا نہيں ؟ الخ
ليكن اللہ تعالى كى طرف سے آسانى ہے كہ اہليت والے شخص سے صادر شدہ فعل اصلا صحيح اور نافذ ہوتا ہے، الا كہ كوئى دليل مل جائے .
ماخذ:
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح للشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 1 / 77 )