بعض لوگ يوم عاشوراء كو آنكھوں ميں سرمہ ڈالتے اورغسل كر كے مہندى وغيرہ لگاتے اور مصافحے كرتے، اور دانے پكا كر خوشى و سرور كا اظہار وغيرہ كرتے ہيں، ايسا كرنے كا كيا حكم ہے؟ اور كيا اس ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى صحيح حديث مروى ہے كہ نہيں؟
اور اگر ايسا كرنے ميں كوئى صحيح حديث وارد نہيں تو كيا يہ بدعت ہے كہ نہيں؟
اور اس كے مقابلے ميں ايك گروہ ماتم اور غم و پياس اور آہ بكا اور كپڑے پھاڑنا اور نوحہ وغيرہ كا اظہار كرتا ہے، تو كيا اس كى كوئى دليل ملتى ہے كہ نہيں ؟
يوم عاشورا كا جشن منانے يا اس ميں ماتم كرنے كا حكم
سوال: 4033
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى سے اس سوال كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے اس كے جواب ميں فرمايا:
رب العالمين، سب تعريفات اس رب كے ليے ہيں جو سب جہانوں كا پالنے والا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس بارہ ميں كوئى صحيح حديث وارد نہيں،اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے ثابت ہے، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے اسے مستحب قرار ديا ہے، نہ تو آئمہ اربعہ نے اور نہ ہى كسى دوسرے نے، اور اسى طرح بااعتماد اور معتبر كتابوں كے مؤلفين نے بھى اس بارہ ميں كچھ روايت نہيں كيا، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام سے، اس بارہ ميں نہ تو صحيح روايت ہے اور نہ ہى ضعيف، اور نہ تو كتب صحيح ميں اور نہ ہى كتب سنن ميں اور نہ ہى مسانيد ميں.
بلكہ افضل اور بہتر ادوار اور قرون اولى ميں تو ان احاديث ميں سے كچھ بھى معروف نہيں تھا، ليكن بعض متاخرين اور بعد ميں آنے والوں نے اس كے متعلق كچھا احاديث روايت كى ہيں مثلا يہ روايت بيان كى جاتى ہے كہ:
جس نے يوم عاشوراء ميں سرمہ لگايا اسے اس سال آنكھ درد نہيں ہو گى، اور جس نے يوم عاشوراء كو غسل كيا وہ اس برس بيمار نہيں ہو گا.
اور اس طرح كى كئى ايك روايات بيان كى جاتى ہيں، اور يوم عاشوراء ميں نماز ادا كرنے كى فضيلت ميں بھى روايات بيان كرتے ہيں، اور يہ بھى روايات كيا ہے كہ: آدم عليہ السلام كى توبہ يوم عاشوراء ميں ہوئى، اور نوح عليہ السلام كى كشتى جودى پہاڑ پر يوم عاشوراء ميں ہى ركى، اور يوسف عليہ السلام يعقوب عليہ اسلام كے پاس اسى دن واپس كيے گئے، اور ابراہيم عليہ السلام نے آگ سے نجات بھى اسى دن پائى، اور اسماعيل ذبيح عليہ السلام كے فديہ ميں اسى دن مينڈھا ذبح كيا گيا، وغيرہ .
اور ايك موضوع حديث جو كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ ہے ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
" جس نے يوم عاشوراء ميں اپنے گھر والوں كو وسعت كسائش دى اللہ تعالى سارا سال اسے آسانى اور كسائش دے گا"
( پھر اس كے بعد شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے عراق كى سرزمين كوفہ ميں پائے جانے والے ان دونوں گمراہ فرقوں كو بيان كيا ہے جو يوم عاشوراء كو اپنى بدعات كے ليے يوم جشن كے طور پر مناتے تھے )
رافضى گروہ ( شيعہ ) جو اہل بيت سے محبت اور انس ظاہر كرتے ہيں حالانكہ وہ باطنى طور پر يا تو ملاحدہ اور زنادقہ ہيں، يا پھر جاہل اور خواہشات كے پيروكار ہيں.
اور دوسرا گروہ نواصب كا ہے، جو فتنہ اور فساد كے وقت قتل و غارت ہونے كى بنا پر على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے بغض كا اظہار كرتے ہيں، حالانكہ مسلم شريف ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ( قبيلہ ) ثقيف ميں ايك كذاب اور اور ايك خونريزى كرنے والا ہو گا"
لہذا مختار بن ابو عبيد الثقفى كذاب تھا، اور وہ اہل بيت سے دوستى اور محبت كا اظہار كرتا اور ان كى مدد كرنے كا دعويدار تھا، اور عراق كے امير عبيد اللہ بن زياد كو قتل كيا جس نے وہ پارٹى تيار كى جس نے حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قتل كيا اور پھر اس نے كذب كا اظہار كرديا اور نبوت كا دعوى كرتے ہوئے كہا كہ اس پر جبريل عليہ السلام نازل ہوتے ہے، حتى كہ وہ ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كو كہنے لگے: انہوں نے ان ميں سے ايك كو كہا: مختار بن ابو عبيد كا خيال ہے كہ اس پر وحى نازل ہوتى ہے، تو انہوں نے كہا وہ سچ كہتا ہے:
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كيا ميں تمہيں اس كى خبر نہ دوں جس پر شيطان نازل ہوتے ہيں تا كہ وہ اپنے دوستوں كو يہ وحى كريں كہ وہ تم سے لڑيں.
اور رہا خونريزى كرنے والا تو وہ حجاج بن يوسف الثقفى تھا، اور يہ شخص على رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھيوں سے منحرف تھا، لہذا يہ نواصب ميں سے ہے، اور پہلا روافض ( شيعہ ) ميں سے تھا، اور يہ رافضى سب سے بڑا جھوٹ پرداز اور بہتان باز، اور دين ميں الحاد كرنے والا تھا، كيونكہ اس نے نبوت كا دعوى كيا.
اور كوفہ ميں ان دونوں گروہوں كے مابين لڑائى اور فتنہ وقتال تھا، لہذا جب يوم عاشوراء ميں حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما شہيد ہوئے اور انہيں باغى اور ظالم گروہ نے قتل كيا، اور اللہ تعالى نے حسين رضى اللہ تعالى كو خلعت شہادت سے نوازا اسى طرح اہل بيت ميں سے دوسروں كو بھى شہادت سے سرفراز كيا، ان ميں سے حمزہ اور جعفر رضى اللہ تعالى عنہما كو شہادت كى عزت دى، اور حسين رضى اللہ تعالى كے والد على رضى اللہ تعالى كو بھى شہادت جيسى عزت سے نوازا، اور اس كے علاوہ دوسروں كو بھى.
اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ شہادت ان اشياء ميں سے تھى جن كے ساتھ اللہ تعالى نے ان كے مقام و مرتبہ كو اور بلند كرديا اور ان كے درجات ميں اضافہ كيا كيونكہ وہ اور ان كے بھائى حسن رضى اللہ تعالى عنہ جنتى نوجوانوں كے سردار ہيں، اور پھر بلند و بالا مقام و مرتبہ بغير كسى ابتلاء اور آزمائش كے حاصل نہيں ہوتا، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا كہ: سب سے زيادہ كن لوگوں كى آزمائش ہوتى ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" انبياء كى اور پھر صالحين كى پھر سب سے زيادہ بہتر اور اچھے شخص كى اور پھر اس سے كم كى، آدمى كى آزمائش اس كے دين كے مطابق ہوتى ہے، لہذا اگر وہ اپنے دين ميں پختہ اور سخت ہو اس كى آزمائش اور تكليف ميں اضافہ ہوجاتا ہے، اور اگر اس كے دين ميں كمى اور ہلكا پن ہو تو آزمائش بھى كم ہو جاتى ہے، اور ايك مومن شخص پر آزمائش رہتى ہے حتى كہ وہ زمين پر چلتا ہے تو اس كا كوئى گناہ باقى نہيں رہتا" اسے ترمذى وغيرہ نے روايت كيا ہے.
لہذا حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كى جانب سے جو كچھ مرتبہ اور منزلت اور درجہ حاصل تھا وہ مل گيا، اور ان دونوں كے ليے وہ آزمائش اور تكليف نہيں آئى جو ان كے سلف اور پہلے لوگوں پر آئى تھى، اس ليے كہ حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما تو اسلام كى عزت ميں پيدا ہوئے، اور عزت اكرام ميں پرورش پائى، اور سب مسلمان ان كىعزت و تكريم كرتے تھے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات ہوئى تو وہ ابھى سن تميز كو بھى نہيں پہنچے تھے، تو اللہ تعالى كى ان پر يہ نعمت تھى كہ انہيں آزمائش ميں ڈالا جو انہيں ان كے خاندان والوں كے ساتھ ملائے، جيسا كہ ان سے بہتر اور اچھے اور نيك بھى آزمائش ميں پڑے، اس ليے كہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ ان دونوں سے بہتر اور افضل تھے، اور انہيں شہادت كى موت آئى اور قتل كرديا گيا.
اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت ايسى تھى جس كى بنا پر فتنوں نے سر ابھار ليا اور لوگوں كے مابين فتنے پھوٹ پڑے، جس طرح كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كا قتل فتنوں كو لانے والے اسباب ميں سے سب سے بڑا سبب تھا، جس نے لوگوں كے مابين فتنے پھيلا ديے، اور اس كى بنا پر ہى امت مسلمہ جدا جدا ہو گئى اور اس ميں قيامت تك تفرقہ پڑ گيا، اسى ليے حديث ميں آيا ہے كہ:
" تين اشياء سے جو كوئى بھى نجات پا گيا وہ كامياب ہوا اورنجات پا گيا، ميرى موت، اور خليفہ كو صبركى حالت ميں قتل كرنا، اور دجال"
( پھر شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے حسن رضى اللہ تعالى عنہ كے عدل وانصاف اور ان كى سيرت كا كچھ حصہ ذكر كيا ہے حتى كہ وہ كہتے ہيں:
پھر وہ فوت ہو گئے اور اللہ تعالى كى عزت و تكريم اور اس كى رضامندى كى طرف چلے گئے، اور ان گروہوں نے جنہوں نے حسين رضى اللہ تعالى عنہ كو خطوط لكھے اور ان سے مدد و تعاون كا وعدہ كيا كہ اگر وہ معاملے كو لے كر اٹھ كھڑے ہوں تو وہ سب ان كے ساتھ ہيں، حالانكہ وہ لوگ اس كے اہل نہيں تھے، بلكہ جب حسين رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے چچازاد كو ان كى طرف روانہ كيا تو انہوں نے اس كے ساتھ وعدہ خلافى كى اور معاہدہ كو توڑ ديا اور ان كے خلاف ہو گئے جنہوں نے ان سے مدد كا وعدہ كيا تھا اور كہا تھا كہ ہم آپ كے ساتھ مل كر لڑيں گے، اور اہل رائے اور حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كرنے والوں نے مثلا ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما وغيرہ نے انہيں يہ مشورہ ديا كہ وہ ان كے پاس نہ جائيں ليكن انہوں نے ان كا مشورہ قبول نہ كيا، ان كے خيال ميں وہاں جانے ميں كوئى مصلحت نہيں تھى، اور اس كے نتائج بھى بہتر اور اچھے نہيں، اور واقعتا معاملہ بھى ايسا ہى ہوا جيسا انہوں نے كہا تھا، اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے مقدر كردہ تھا، لہذا جب حسين رضى اللہ تعالى عنہ نكلے اور انہوں نے ديكھا كہ معاملات تو بدل چكے ہيں، تو انہوں نے ان سے مطالبہ كيا كہ مجھے واپس جانے دو يا پھر كسى سرحد پر جا كر لڑنے دو، يا اپنے چچا زاد يزيد كے پاس ہى جانے دو تو انہوں نے ان سب باتوں سے انكار كرديا اور ان كى بات تسليم نہ كى حتى كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كو قيدى بنا ليا اور ان سے لڑائى اور جنگ كرنے لگے تو حسين رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى ان سے لڑائى كى تو انہوں نے حسين رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھ كچھ لوگوں كو بھى قتل كرديا يہ ايك مظلوم كى شہادت تھى جس كے ساتھ اللہ تعالى نے انہيں عزت و شرف سے نوازا اور انہيں ان كے طيب اور طاہر اہل بيت كے ساتھ ملا ديا، اور جنہوں نے ان پر ظلم اور زيادتى كى اللہ تعالى نے اس شہادت كے ساتھ انہيں ذليل و رسوا كرديا، اور اس نے لوگوں كے مابين شر اختيار كر ليا، لہذا ايك گروہ ظالم اور جاہل بن گيا، يا تو يہ گروہ ملحد اور منافق ہے يا گمراہ اور راستے سے بھٹك چكا ہے، اور ان سے اور اہل بيت سے اپنى محبت تو ظاہر كرتا ہے اور يوم عاشوراء ميں ماتم اور نوحہ كرتا اور غم ميں مبتلا ہوتا ہے، اور اس دن جاہليت كے كام اور شعار ظاہر كرتے ہوئے منہ اور جسم كو پيٹتا اور كپڑے پھاڑتا اور دور جاہليت كى تعزيت كرتے ہوئے تعزيہ نكالتا ہے، جس كے بارہ ميں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مصيبت – اگر نئى ہو تو – ميں حكم ديا ہے كہ صبر و تحمل اور برداشت سے كام ليا جائے اور انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھا جائے اور اجروثواب كى نيت كى جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
اور صبر كرنے والوں كو خوشخبرى دے ديں، جب انہيں كوئى مصيبت اور تكليف پہنچتى ہے تو وہ كہتے ہيں بلا شبہ ہم اللہ تعالى كے ليے ہيں اور اسى كى طرف پلٹنے والے ہيں، يہى ہيں جن پر اللہ تعالى كى نوازشيں اور رحمتيں ہيں، اور يہى ہدايت يافتہ ہيں
اور صحيح ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى رخسار پيٹے اور كپڑے پھاڑے، اور جاہليت كى پكار لگائے وہ ہم ميں سے نہيں "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں مصيبت ميں نوحہ كرنے والى، اور بال منڈانے والى اور كپڑے پھاڑنے والى سے برى ہوں"
اور فرمايا:
" اگر نوحہ كرنے والى موت سے قبل توبہ نہيں كرتى تو روز قيامت وہ اٹھے گى اور اس پر گندھك كى قميص اور خارش كى درع ہو گى"
اور مسند ميں فاطمہ بنت حسين رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ اپنے والد حسين رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس شخص كو بھى كوئى مصيبت اور تكليف پہنچتى ہے تو وہ اپنى مصيبت كو ياد كرتا ہے اگرچہ اسے زيادہ دير بھى ہو چكى ہو تو وہ اس پر انا للہ وانا اليہ راجعون كہے تو اللہ تعالى اس كے بدلے ميں اسے اس دن جس ميں اسے مصيبت پہنچى تھى جتنا ہى اجروثواب دے گا"
اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے مومنوں كى عزت و تكريم ہے، بلا شبہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ كى مصيبت اتنى مدت بعد بھى جب ياد كى جائے تو مومن شخص كو چاہيے كہ وہ اس ميں انا للہ وانا اليہ راجعون كہے، جيسا كہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، تا كہ اسے بھى مصيبت زدہ جتنا ہى اجروثواب حاصل ہو سكے جس دن اسے مصيبت پہنچى تھى، اور جب اللہ تعالى نے مصيبت آتے ہى اور اس كے قريبى وقت ميں صبر و تحمل كا حكم ديا ہے تو پھر جب مصيبت كو ايك لمبى مدت گزر چكى ہو تو كيسے ہوگا.
گمراہ اور غلط راستے پر چلنے والوں كے ليے شيطان نے جو كچھ مزين كيا اس ميں يوم عاشورا كا ماتم اور نوحہ و آہ و بكا اور مرثيے اور غم وحزن كے اشعار پڑھنا بھى شامل ہے، كہ اسے ماتم كا دن بنايا جائے، اور اس دن وہ جھوٹى اور من گھڑت روايتيں بيان كرتے ہيں، اور سچائى تو يہ ہے كہ اس ميں غم اور پريشانى كى تجديد اور تعصب اور دشمنى اور مخالفت پيدا كرنے اور لڑائى اور اہل اسلام كے مابين فتنہ پيدا كرنے كے علاوہ كچھ نہيں، اور اس كے ساتھ پہلے سابقين الاولين پر سب وشتم، اور كذب بيانى ميں كثرت، اور دنيا ميں فتنہ وفساد تك پہنچنے كا وسيلہ ہے، اسلام ميں پائے جانے والے فرقے اور گروہوں ميں اس گمراہ اور حق سے پھسلے ہوئے فرقہ كے علاوہ كوئى فرقہ زيادہ جھوٹا اور فتنہ وفساد پيدا كرنے والا اور كفار كے ساتھ دوستى اور مسلمانوں كے خلاف كفار كا تعاون و مدد كرنے والا كوئى اور فرقہ نہيں، يہ اسلام سے نكلے ہوئے خارجيوں سے بھى زيادہ شرير ہيں، انہيں كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اہل اسلام ( مسلمانوں ) كو فتنہ ميں ڈالتے اور بت پرستوں كو چھوڑتے ہيں انہيں كچھ نہيں كہتے"
اور يہى ہيں جو اہل بيت اور مسلمانوں كے خلاف يہوديوں اور عيسائيوں اور مشركوں كى مدد و تعاون كرتے ہيں، بالكل اسى طرح جس طرح انہوں نے تركيوں اور تتاريوں ميں سے مشرك لوگوں كى بغداد وغيرہ ميں جو كچھ انہوں نے خانوادہ نبوت اور عباس كى اولاد اہل بيت اور ان كے علاوہ دوسرے مومن اور مسلمانوں كے ساتھ كيا اور انہيں قتل كيا ان كا خون بہايا اور ان كے گھروں كو منہدم كيااس ميں مدد و تعاون فراہم كيا، ايك عقلمند اور مسلمانوں كوجو كچھ ضرر و نقصان اس فرقہ اور گروہ نے ديا ہے اسے ايك عقلمند اور فصيح الكلام شخص شمار بھى نہيں كرسكتا.
اور اس فرقے اور گروہ كے مقابلے ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يا تو ناصبى جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ اور اہل بيت پر تعصب ركھتے ہيں، يا پھر جاہل ہيں جو فساد اور غلط كام كے مقابلے ميں غلط اور فساد سے كام ليتے ہيں اور جھوٹ كا مقابلہ جھوٹ اور شر و برائى كا مقابلہ شر اور برائى اور بدت كے مقابلے ميں بدعات كرتے ہيں، لہذا انہوں نے فرحت و سرور اور خوشى كى علامات ميں كچھ ايسے آثار اور احاديث وضع كرليں جن ميں يوم عاشوراء كو يہ اعمال كرنا كا بيان ہے، مثلا:
سرمہ اور خضاب لگانا، اور اہل و عيال پر فراخدلى سے زيادہ خرچ كرنا، اور عام طور پر عادت سے ہٹ كر مختلف قسم كے كھانے پكانا، وغيرہ دوسرے اعمال جو مختلف تہواروں اور موسموں ميں كيے جاتے ہيں، لہذا ان لوگوں نے يوم عاشورا كو دوسرے تہواروں جيسا ايك تہوار بنا ليا ہے اس ميں خوشى اورسرور مناتے ہيں، اور دوسرے گروہ ( شيعہ ) اس دن ميں ماتم كرتے اور مرثيے پڑھتے ہيں اور غمزدہ پريشانى كا اظہار كرتے ہيں، اور يہ دونوں گروہ اور فرقے غلط ہيں اور سنت سے باہر ہيں، اگرچہ يہ لوگ ( رافضى اور شيعہ ) مقصد كے اعتبار سے برے اور بہت زيادہ جاہل، اور ظاہرا ظالم ہيں، ليكن اللہ عزوجل نے عدل وانصاف اوراحسان كا حكم ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو بھى ميرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زيادہ اختلاف ديكھے گا، لہذ تم ميرى اور ميرے بعد خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑنا، اس پر عمل كرو اور اسے مضبوطى سے تھامے ركھو، اور نئے نئے كام سے بچو كيونكہ ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے"
نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى ان كے خلفاء راشدين نے يوم عاشوراء ميں يہ كام مسنون كيے، نہ تو غم و پريشانى اور نہ ہى خوشى و فرحت كى علامات كا اظہار، ليكن يہ ہے كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو مدينہ كے يہوديوں كو ديكھا كہ وہ يوم عاشوراء كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ كيا ہے؟
تو وہ كہنے لگے: يہ وہ دن ہے جس ميں اللہ تعالى نے موسى عليہ السلام كو غرق ہونے سے نجات دى تھى لہذا ہم اس دن كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم سے زيادہ موسى عليہ السلام كے حقدار ہيں، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى روزہ ركھا اور اس دن كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا"
اور دور جاہليت ميں قريش بھى اس دن كى تعظيم كرتے تھے، اور جس دن كا روزہ ركھنے كا حكم ديا وہ ايك دن تھا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں تشريف لائے اور اگلے سال يوم عاشورا كا روزہ ركھا اور اس كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا، پھر اسى برس رمضان المبارك كے روزے فرض كر ديے گئے تو عاشوراء كا روزہ منسوخ ہو گيا.
علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ: كيا اس دن كا روزہ واجب تھا؟ يا مستحب؟
اس ميں دو مشہور قول ہيں، ان ميں صحيح يہى ہے كہ يہ روزہ واجب تھا، پھر بعد ميں اسے استحباب ميں بدل ديا گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عام لوگوں كو اس كا روزہ ركھنے كا حكم نہيں ديا بلكہ آپ فرمايا كرتے تھے:
" يہ يوم عاشوراء ہے، ميں روزہ سے ہوں لہذا جو كوئى روزہ ركھنا چاہے روزہ ركھے"
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى فرمايا:
" يوم عاشوراء كا روزہ ايك سال كے گناہوں كا كفارہ ہے، اور يوم عرفہ كا روزہ دو برس كے گناہوں كا كفارہ ہے"
اور جب نبى كريم صلى اللہ وسلم كى زندگى كے آخرى ايام تھے اور جب انہيں يہ علم ہوا كہ يہودى اس دن كو تہوار اور عيد كے طور پر مناتے ہيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں نو محرم كا روزہ ركھوں گا"
تا كہ يہوديوں كى مخالفت كرسكيں، اور اس دن كو ان كے تہوار منانے ميں ان كى مشابہت نہ ہو سكے، اور صحابہ كرام اور علماء صرف يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا مكروہ سمجھتے تھے، جيسا كہ كوفيوں كے ايك گروہ سے نقل كيا جاتا ہے، اور كچھ علماء اس كا روزہ مستحب قرار ديتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ: جو شخص يوم عاشوراء كا روزہ ركھے اسے اس كے ساتھ نو محرم كا بھى روزہ ركھنا چاہيے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا آخرى امر ہے اس كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں دس كے ساتھ نو كا بھى روزہ ركھوں گا"
جيسا كہ حديث كے بعض طرق ميں اسى تفسير كے ساتھ آيا ہے، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہى مسنون كيا ہے، ليكن اس كے علاوہ باقى سب امور: مثلا عادت سے ہٹ كر كوئى كھانا تيار كرنا، چاہے وہ دانے ہوں يا كوئى اور چيز، يا پھر نيا لباس زيب تن كرنا، اور اہل وعيال پر خرچہ ميں وسعت اور زيادہ كرنا، يا اس دن پورے سال كا راشن خريدنا، يا كوئى مخصوص عبادت كرنا، مثلا اس كى مخصوص نماز، يا قربانى ذبح كرنا، يا قربانى كا گوشت اس مقصد سے ركھـ لينا كہ اس گوشت كے ساتھ دانے پكائے جائيں، يا سرمہ اور خضاب وغيرہ لگانا، يا غسل كرنا يا مصافح كرنا، يا ايك دوسرے كى زيارت كرنا، يا مسجدوں اور مشاہد كى زيارت كرنا، اس كے علاوہ دوسرے امور، يہ سب كچھ بدعات اور منكرات ميں شامل ہوتے ہيں، جن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت نہيں ملتا اور نہ ہى ان كے خلفاء الراشدين سے مسنون ہے، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ايك نے اسے مستحب قرار ديا ہے، نہ تو امام مالك رحمہ اللہ اور نہ ہى امام ثورى اور امام ليث بن سعد اور نہ ہى امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ نے، اورنہ امام اوزاعى اور امام شافعى اور نہ ہى امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہويہ رحمہم اللہ نے، اور نہ ہى ان جيسے دوسرے مسلمان آئمہ كرام مسلمان علماء نے..
اور دين اسلام تو صرف دو اصلوں پر قائم ہے يعنى وہ صرف يہ ہے كہ ہم اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كريں، اور اس كى عبادت بھى اس طرح كريں جو ثابت اور مشروع ہے، ہم اس كى عبادت بدعات و خرافات كے ساتھ نہيں كرينگے.
فرمان بارى تعالى ہے:
جو كوئى بھى اللہ تعالى كى ملاقات كى اميد ركھتا ہے اسے چاہيے كہ وہ اعمال صالحہ كرے اور اپنے رب كى عبادت ميں كسى دوسرے كو شريك نہ كرے
لہذا عمل صالح وہ ہے جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو پسند اور محبوب ہو، وہى عمل مشروع اور مسنون ہے، اسى ليے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ اپنى دعا ميں يہ كہا كرتے تھے:
اے اللہ ميرے سارے عمل صالح بنا اور اسے اپنے ليے خالص بنا دے، اور اس ميں كسى دوسرے كو كچھ بھى نہ ركھ.
انتہى. شيخ الاسلام كى كلام كا اختصار ہے. )
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 5 )
اللہ تعالى ہى سيدھے راستے كى راہنمائى كرنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات