آپ سے گزارش ہے کہ مجھے معلومات فراہم کریں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائيگي کرکے واپس اپنے شہر واپس چلے جائيں توکیا ہمارا حج تمتع ہوگا اورہم پرقربانی ضروری ہوگي کہ نہيں ؟
آپ کوعلم ہونا چاہیے کہ ہم حج مفرد کرنے کی نیت رکھتے ہیں اورہماری رہائش مدینہ شریف میں ہے ۔
حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائيگي کےبعد اپنے ملک واپس چلاگیا توکیا اس کا حج تمتمع ہوگا ؟
سوال: 40356
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
متمتع یعنی حج تمتع کرنے والا وہ شخص ہے جس نے حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھا اورعمرہ سے فارغ ہوکر اسی برس حج کا احرام باندھ لیا ۔
اورحج تمتع کی شرط یہ ہےکہ تمتع کرنے والا عمرہ کرنے کے بعد مکہ سے اپنے شہر اورملک واپس نہ جائے ، لھذا اگر وہ اپنے شہریا ملک واپس چلاگيا اورحج مفرد کے لیے واپس آیا تواس کا یہ حج مفرد ہی ہوگا اورحج تمتع نہيں ، اورنہ ہی اس پرقربانی لازم ہوگي ، کیونکہ اس نے حج کے لیے نیا سفر کیا ہے ، اوراگر یہ حاجی حج تمتع کرنا چاہے تواسے دوسرے سفر میں میقات سے حج تمتع کااحرام باندھنا ہوگا ۔
لیکن اگر وہ مکہ سےاپنے ملک یا شہر کی بجائے کہيں اورسفر کرتا ہے مثلا وہ جدہ جائے اوروہاں سے حج کا احرام باندھ کرواپس آئے تواس کا حج تمتع ہی ہوگا اوراس کا جدہ جانا اس کےتمتع کوباطل نہيں کرتا کیونکہ وہ اپنےاہل وعیال اوراپنے گھر واپس نہيں گیا ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :
ایک شخص نے شوال میں عمرہ کیا اوراپنے گھرواپس چلاگیا اورپھر حج کے موقع پرحج مفرد کی نیت سے مکہ واپس آیا توکیا اس کا حج حج تمتع ہوگا اوراس پرقربانی واجب ہے ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب کسی انسان نے شوال میں عمرہ کیا اوراپنے گھر واپس آگیا اورپھر حج مفرد کےلیے آیا توجمہورعلماء کرام کے نزدیک وہ متمتع نہیں یعنی اس کا حج تمتع نہیں ہوگا ، اورنہ ہی اس پرقربانی ہے ، کیونکہ وہ اپنے اہل وعیال کے پاس گيا تھااورپھر وہ حج مفرد کی نیت کےساتھ واپس آیا ۔
عمر اوران کے بیٹے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے یہی مروی ہے ، اورجمہورعلماء کرام کا بھی یہی قول ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ وہ متمتع ہوگا ، اوراس پرقربانی بھی ہوگي کیونکہ اس نے حج کے مہینوں میں عمرہ اورحج کوایک ہی سال میں جمع کیا ہے ۔
لیکن جمہورعلماء کرام کہتے ہيں : جب اپنے اہل وعیال کے پاس واپس چلا گيا ، اور ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ : جب وہ قصر کی مسافت جتنا سفر کرے اورپھر وہ حج مفرد کرے تووہ متمتع نہیں ہوگا ، اورظاہر یہ ہوتا ہے واللہ اعلم کہ راجح وہ ہے جوعمر اورابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے ، کہ جب وہ اپنے اہل وعیال کے پاس واپس چلا گيا تووہ متمتع نہيں ہوگا اورنہ ہی اس پر دم ہے ۔
لیکن جوشخص حج کے لیے آيا اورعمرہ ادا کرنے کے بعد وہ جدہ یا طائف میں رہے اوروہ وہاں کا رہائشی بھی نہ ہو پھروہاں سے ہی وہ حج کا احرام باندھتا ہے تویہ متمتع ہوگا ، تواس کا مکہ سے جدہ یا مدینہ یا طائف جانا اسے متمتع ہونے سے نہیں نکالےگا ، اس لیے کہ وہ دونوں ( یعنی عمرہ اورحج ) کی ادائيگی کے لیے آيا ہے ، اورجدہ یا طائف کسی ضرورت کی بنا پرگيا ہے اوراسی طرح اس کا مدینہ کی زیارت کے لیے جانےمیں بھی راجح اوراظہر یہی ہے کہ اس کے متمتع ہونے میں مانع نہیں ہوگا ، تواس بنا پراسے قربانی بھی کرنا ہوگي ، اوروہ عمرہ کی طرح حج کی بھی سعی کرے گا ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع فتاوی الشیخ ابن باز ( 17 / 96 ) ۔
اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی میں یہ بھی ہے کہ :
اوراگروہ واپسی پربھی عمرہ کے احرام میں آیا ( یعنی اپنے دوسرے سفرمیں ) اوراس احرام سے حلال ہوگیا پھر حج تک وہیں قیام کیا تویہ حج تمتع ہوگا ، اورجمہورعلماء کے ہاں اسے اس کا پہلا عمرہ متمتع نہیں بنائے گا ، لیکن وہ اپنے آخری عمرہ جس کی ادائيگي کے بعد وہ حج تک مکہ میں ہی مقیم رہا ہے کی بنا پرمتمتع ہوگا ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ ( 17 / 98 ) ۔
اورشيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب حج تمتع کرنے والا اپنے شہریا ملک واپس چلا جائے اوراورپھر اپنے شہرسے حج کی نیت سے مکہ جائے تواس کاحج مفرد ہوگا ، کیونکہ اس کا حج اورعمرہ کے مابین اپنے اہل وعیال کی پاس واپس آجانے کی بنا پرانقطاع پیدا ہوگیا ہے ، تواس کا دوسرا سفر کرنا حج کے لیے جدید سفر ہوگا تواس وقت اس کا حج مفرد ہے ، لھذا اس پرحج تمتع کی قربانی واجب نہيں ہوگي ۔
لیکن اگر اس نےقربانی سے بچنے کےلیے یہ بطورحیلہ کیا تواس سے قربانی ساقط نہيں ہوگي ، اس لیے کہ واجب کوساقط کرنے کےلیے حیلہ کرنا اس کے اسقاط کا متقاضی نہيں ، جس طرح کہ حرام چيز پرحیلہ کرنا اس کے حلال ہونے کا متقاضی نہيں ۔
دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ نمبر ( 524 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب