كيا ہر چيز ميں والدين كى اطاعت كرنى فرض ہے، جب وہ مجھے نفلى نماز اور روزہ ترك كرنے كا حكم ديں تو كيا ان كى اطاعت كرنى واجب ہے؟
ميں نے اپنى نانى كى جانب سے حج كرنے كا عزم كر ركھا ہے، ليكن ميرے والد صاحب نہيں مانتے وہ كہتے ہيں كہ نانى كى اولاد اس كا زيادہ حق ركھتى ہے، تو كيا اس معاملہ ميں مجھے والد صاحب كى بات ماننا لازم ہے ؟
كيا وہ اپنى نانى كى جانب سے حج كر لے چاہے والد ناراض ہى ہو ؟
سوال: 40583
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
والدين كى اطاعت ہر اس مسئلہ ميں ہے جس ميں انہيں فائدہ اور منفعت ہو اور آپ كو كوئى نقصان اور ضرر نہ ہوتا ہو، ليكن اگر وہ آپ كو نفلى عبادت كرنے سے منع كرتے ہيں تو ہم ديكھيں گے كہ جب آپ ان كى ضرورت والا كام نہيں كرتے اور وہ اس كام كے محتاج ہيں ليكن آپ اس نفلى عبادت ميں مشغول ہيں تو پھر آپ ان كى اطاعت كريں، مثلا آپ كے والد آپ كو كہيں مہمانوں كا انتظار كرو اور نفلى نماز نہ پڑھو، تو يہاں ان كى اطاعت كرنا واجب ہے كيونكہ يہ اس كى غرض كے ليے ہے.
ليكن اگر وہ آپ كو كہيں كہ: چاشت كى نماز نہ پڑھو، كيونكہ وہ اس طرح كے امور ناپسند كرتے ہيں، وہ كمزور ايمان كى بنا پر نوافل كو ناپسند كرتا ہے، اس ليے آپ ان كى اطاعت نہ كريں، ليكن اسے چكر دينے كى كوشش كريں يعنى دوسرے معنوں ميں آپ بھلائى كے كام اس سے چھپا كر كريں.
لہذا ہم سائل كو يہ كہينگے:
نانى كى طرف سے حج كرو، اور جب آپ كے والد كہيں كہ حج نہ كرو تو انہيں جواب دو كہ كوئى حرج نہيں، اور آپ حج كر ليں، اور جب آپ اس ميں كوئى تاويل كر سكتے ہيں تو اس ميں كوئى جھوٹ نہيں ہے، اور تاويل كا معنى يہ ہے كہ: آپ اسے كہيں: ميں حج نہيں كرونگا، يعنى آئندہ برس، كيونكہ يہ والد قطع رحمى كا حكم دے رہا ہے، يا پھر وہ جاہل ہے، آپ اسے كہيں: جى ہاں ميں آپ كو راضى كرنے كے ليے اس كى طرف سے حج نہيں كرتا، اور آپ اس ميں نيت يہ كر ليں كہ ميں آئندہ برس اس كى جانب سے حج نہيں كرونگا، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ اس برس حج كرنے چلے جائيں.
اور بعض مائيں بھى اسى طرح كى ہوتى ہيں كہ جب وہ ديكھتى ہيں كہ اس كے بيٹے اور اس كى بيوى كے تعلقات اچھے ہيں تو وہ اسے طلاق دينے كا كہتى ہيں، كہتى ہيں بيٹے يا ميں يا پھر وہ ، تا كہ بيٹا اسے طلاق دے، اور اسى طرح باپ بھى بعض اوقات غلط فہمى كى بنا پر كہتا ہے بيوى كو طلاق دے دو، تو اسے طلاق نہيں دينى چاہيے.
ايك شخص نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا:
ميرے والد نے مجھے بيوى كو طلاق كرنے كا حكم ديا ہے اور ميں بيوى سے محبت كرتا ہوں ؟
تو امام صاحب نے كہا: اسے طلاق مت دو، تو سائل كہنے لگا: ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو جب ان كے والد عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان كى بيوى كو طلاق دينے كا حكم ديا تھا تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اپنى بيوى كو طلاق دے دو.
تو انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو بيوى كى طلاق ميں اپنے والد كى اطاعت كرنے كا حكم ديا تھا.
تو امام احمد رحمہ اللہ نے اسے بہت اچھى بات كہى:
تو كيا آپ كا والد عمر ہے ؟ !
اور اس كلمہ كا كچھ معنى ہے، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس وقت تك اپنے بيٹے كو طلاق دينے كا حكم نہيں ديا جب تك بہو ميں كوئى اس كا شرعى سبب نہ ديكھا ہو، ليكن ہو سكتا ہے تيرے والد اور اس عورت كے مابين كوئى شخصى معاملہ ہو” انتہى بتصرف
واللہ اعلم .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 265 )