ميں سفر سے واپس پلٹا تو مغرب كى نماز ادا نہيں كى تھى، جب مسجد ميں داخل ہوا تو وہ عشاء كى نماز ادا كر رہے تھے، كيا ميں ان كے ساتھ عشاء كى نماز ادا كروں يا كہ اكيلے مغرب كى نماز ادا كر كے پھر عشاء ادا كروں ؟
عشاء كى نماز ادا كرنے والے كے پيچھے مغرب ادا كرنا
سوال: 40598
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بلكہ آپ امام كے ساتھ مغرب كى نيت سے شامل ہو جائيں، اور پھر تيسرى ركعت ميں بيٹھ كر تشھد پڑھ كے سلام پھير ليں، اور پھر باقى نماز ميں امام كے ساتھ عشاء كى نماز ميں شامل ہو جائيں، يا پھر تشھد ميں ہى انتظار كريں حتى كہ امام اپنى نماز مكمل كر لے اور آپ اس كے ساتھ سلام پھيريں اور بعد ميں عشاء كى نماز ادا كرليں.
امام شافعى رحمہ اللہ كامسلك اور امام احمد كا ايك قول يہى ہے، مرداوى نے اسے الانصاف ميں ذكر كيا ہے، كہ اسے امام احمد كے اصحاب ميں سے ايك جماعت جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے جد امجد نے اختيار كيا ہے.
ديكھيں: الانصاف ( 4 / 413 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
” اگر ظہر كى نماز ادا كرنے والے كے پيچھے كوئى فجر كى نيت كرے اور مقتدى كى نماز مكمل ہو جائے تو اگر چاہے تو وہ تشھد ميں بيٹھ كر امام كے سلام پھيرنے كا انتظار كرے اور امام كے ساتھ سلام پھيرے يہ افضل ہے، اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ كر سلام پھير دے اور انتظار مت كرے، بغير كسى اختلاف كے يہاں امام سے مفارقت ميں اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، كيونكہ اس ميں اقتدا كرنا مشكل ہے، اور اس طرح كى دوسرى صورتوں ميں ” انتہى
ديكھيں: المجموع ( 4 / 143 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كچھ لوگ نماز مغرب سے ليٹ ہو گئے، اور انہوں نے امام كو نماز عشاء پڑھتے ہوئے پايا، تو كيا مغرب كى نماز عليحدہ كرائيں گے، يا كہ وہ امام كے ساتھ مل جائيں؟ اور نماز ميں ان كى حالت كيا ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
” صحيح يہ ہے كہ اگر انسان مسجد ميں آئے اور امام نماز عشاء پڑھا رہا ہو چاہے آنے والا اكيلا ہو يا كئى افراد ہوں تو وہ مغرب كى كى نيت كر كے امام كے ساتھ شامل ہو جائيں، امام اور مقتدى كى نيت ميں فرق ہونا كوئى نقصان دہ نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
” اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ”
اگر وہ امام كے ساتھ دوسرى ركعت ميں مليں تو سب اكٹھے سلام پھيريں گے، كيونكہ انہوں نے تين ركعت پڑھ لى ہيں، اور اگر وہ پہلى ركعت ميں مليں تو جب امام چوتھى ركعت كے ليے اٹھے تو وہ بيٹھے رہيں اور تشھد پڑھ كر سلام پھير ليں، اور اٹھ كر امام كے ساتھ عشاء كى نماز ميں شامل ہو جائيں.
اس مسئلہ ميں دوسرا قول:
وہ امام كے ساتھ عشاء كى نيت سے شامل ہو جائيں، بعد ميں نماز مغرب ادا كرليں تو يہاں جماعت كو مدنظر ركھتے ہوئے ترتيب ساقط ہو جائيگى.
تيسرا قول:
وہ نماز مغرب عليحدہ ادا كريں اور پھر امام كے ساتھ باقى مانندہ نماز عشاء ميں شامل ہو جائيں.
آخرى دو قولوں ميں محذور ہے: پہلے قول ميں ترتيب ساقط ہو جاتى ہے كيونكہ نماز عشاء كو نماز مغرب پر مقدم كر ديا گيا.
دوسرے قول كا محذور يہ ہے كہ ايك ہى مسجد ميں ايك ہى وقت كے اندر دو جماعتيں ہونگى، اور يہ امت ميں افتراق كا باعث ہے.
ہم نے جو پہلا قول ذكر كيا ہے وہى صحيح ہے، ہو سكتا ہے كوئى قائل يہ كہے كہ: اس ميں بھى محذور يہ ہے كہ امام سے قبل يہ لوگ سلام پھير لينگے، اور حقيقت ميں يہ محذور نہيں، سنت ميں كئى ايك مقام پر مقتدى كا امام سے منفرد ہونا ثابت ہے.
مثلا: نماز خوف ميں كيونكہ امام مقتديوں كو ايك ركعت پڑھاتا ہے اور وہ دوسرى ركعت خود مكمل كر كے جاتے ہيں.
اور اس ميں اس شخص كا قصہ بھى شامل ہے جو معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ نماز ميں شامل ہوا تو معاذ رضى اللہ تعالى نے سورۃ البقرۃ يا كوئى اور سورۃ شروع كردى تو وہ شخص ان سے عليحدہ ہو كر نماز مكمل كر كے چلتا بنا اور امام كے ساتھ نماز مكمل نہ كى.
اور اس ميں يہ بھى ہے كہ: علماء كا كہنا ہے كہ: اگر انسان دوران نماز ہو تو اسے پيٹ ميں ہوا تنگ كرے يا پيشاب وغيرہ كى بنا پر وضوء توڑنا چاہے تو اس كے ليے انفرادى نماز كى نيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، وہ نماز مكمل كرے اور چلا جائے، يہ دليل ہے كہ ضرورت كى بنا پر منفرد ہونا محذور شمار نہيں ہوتا” انتہى
لقاء الباب مفتوح ( 3 / 425 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
ميں مسجد ميں داخل ہوا تو عشاء كى نماز ہو رہى تھى، نماز ميں شامل ہونے سے قبل مجھے ياد آيا كہ ميں نے تو مغرب كى نماز ادا نہيں كى، تو كيا ميں پہلے مغرب كى نماز ادا كروں اور پھر جماعت كے ساتھ عشاء كى نماز ميں سے جو كچھ ملے اسے ادا كرلوں، يا كہ جماعت كے ساتھ نماز كرنے كے بعد نماز مغرب ادا كروں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
” جب آپ مسجد ميں داخل ہوں اور عشاء كى نماز ہو رہى ہو اور آپ كو ياد آئے كہ مغرب كى نماز ادا نہيں كى، تو آپ مغرب كى نيت سے نماز ميں شامل ہو جائيں، اور جب امام چوتھى ركعت كے ليے اٹھے تو آپ تيسرى ركعت ميں بيٹھے رہيں اور تشہد پڑھيں ـ ميرى مراد يہ ہے كہ التحيات للہ اور درود پڑھيں ـ اور اس كے دعاء كريں اور امام كے سلام پھيرنے تك انتظار كريں اور جب امام سلام پھيرے تو اس كے ساتھ آپ بھى سلام پھير ديں، اہل علم كے صحيح قول كے مطابق مقتدى اور امام كى نيت ميں اختلاف كوئى نقصان دہ نہيں، اور اگر آپ اكيلے مغرب كى نماز ادا كر كے بعد ميں نماز عشاء ميں شامل ہو جائيں تو پھر بھى كوئى حرج نہيں ” انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 189 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى شخص نماز فجر ادا كرنا بھول جائے اور اسے نماز ظہر كھڑى ہونے كے بعد ياد آئے، يا پھر ظہر كى نماز بھول جائے اور اسے عصر كى نماز كھڑى ہونے كے بعد ياد آئے تو كيا وہ امام كے ساتھ فوت شدہ نماز كى نيت سے شامل ہو گا يا كہ موجودہ نماز كى نيت سے، اور فوت شدہ نماز بعد ميں ادا كرے گا ؟
كميٹى كا جواب تھا:
وہ امام كے پيچھے بھولى ہوئى نماز ادا كرے، علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق امام اور مقتدى كى نيت ميں اختلاف كوئى نقصان دہ نہيں ” انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 407 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب