ميرا سوال داخلى گڑ بڑ كے متعلق ہے، ميرى رغبت يہ ہے كہ ميں سنت نبويہ پر مكمل عمل كروں، اور خاص كر مكمل داڑھى ركھوں اور لباس بھى ٹخنوں سے اوپر سنت كے مطابق ہو، ليكن جن حالات ميں ہم اپنے ملك ميں رہ رہے ہيں ان ميں اس طرح سنت پر عمل كرنا بہت مشكل ہے.
اگر ميرے محلہ ميں كوئى بھى تخريب كارى كى كاروائى ہو تو اس كے بارہ ميں پوچھ گچھ كا سب سے پہلا نشانہ ميں بنوں گا، اس پر مستزاد يہ بھى كہ آپ ملك ميں جس شہر ميں بھى جائيں اور آپ باشرع داڑھى اور سنت كے مطابق ٹخنوں سے اوپر لباس والے ہوں تو سب سے پہلے آپ كو ہى روكيں گے، امانت كے ساتھ بات يہ ہے كہ ايسے افراد بھى ہيں جو ميرى حالت ميں ہى ہيں ليكن اس كے باوجود وہ سنت پر عمل كرنے كا التزام كرتے ہيں، ميرا اعتقاد ہے كہ ان كا ايمان قوى ہے جس نے انہيں اس كى اجازت دے ركھى ہے، اس ليے ميں اپنے نفس اور دين كے متعلق ڈرتا ہوں، تو كيا يہ شرعى عذر بن سكتا ہے ؟
اذيت پہنچنے كا احتمال ہو ت وداڑھى بڑھانا
سوال: 40769
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آدمى پر مكمل اور پورى داڑھى ركھنا فرض ہے، اور اسے منڈانا حرام ہے؛ احاديث ميں صريحا داڑھى بڑھانے كا حكم آيا جن ميں سے چند ايك احاديث يہ ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” مونچھيں كٹاؤ اور داڑھى كو اپنى حالت پر چھوڑ دو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5554 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 259 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” مشركوں كى مخالفت كرو، اور داڑھى بڑھاؤ، اور مونچھيں كٹاؤ ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5553 ).
اور ايك روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” مونچھيں پست كرو، اور داڑھى لمبى كرو، اور مجوسيوں كى مخالت كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 260 ).
علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ابن حزم رحمہ اللہ اس پر اجماع نقل كيا ہے كہ مونچھيں كٹوانا اور داڑھى كو اپنى حالت ميں رہنے دينا فرض ہے ” انتہى.
ديكھيں: الفروع ( 1 / 130 ).
قميص اور سلوار اور تہہ بند اور لنگى وغيرہ ميں اسبال يعنى كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھتا حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو تہہ بند اور چادر ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5450 ).
اور ايك روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
” مسلمان كا لباس نصف پنڈلى تك ہے، اور ٹخنوں اور نصف پنڈلي كے درميان ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، جو ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے، جس نے بھى اپنى ازار ( نيچے باندھنے والى چادر ) تكبر كے ساتھ لٹكا كر كھينچى اللہ تعالى اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں ”
مسند احمد حديث نمبر ( 11415 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4093 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مومن شخص پر واجب ہے كہ وہ واجبات و فرائض پر عمل كر كے اور حرام سے اجتناب كرتے ہوئے اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور اس كے ليے اپنى وسعت و استطاعت كو خرچ كرے.
بندے كا ايمان جب بھى قوى ہوگا تو اس كے ليے اپنے پروردگار جل جلالہ كى خوشنودى و رضا كى راہ ميں مشقت برداشت كرنا ممكن ہو، اور وہ اس مشقت كى كوئى پرواہ نہيں كريگا.
اور شيطان لعين تو انسان كو خوفزدہ كرنے كى حرص ركھتا اور كوشش كرتا رہتا ہے، اور اسے استقامت كى راہ سے دور كرنے كے در پے رہتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا بھى فرمان ہے:
يہ تو صرف شيطان ہى ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تم ان كافروں سے نہ ڈرو اور ميرا خوف ركھو، اگر تم مومن ہو آل عمران ( 175 ).
اس ليے شيطانى وسوسوں اور وہم كے سامنے انسان كو سرتسليم خم نہيں كرنا چاہيے.
اور اگر يہ خطرات جو آپ نے ذكر كيے ہيں حقيقى ہوں، نہ كہ صرف وہم تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ يہ بعض واجبات كو ترك كرنے كے ليے عذر ہيں، تا كہ متوقع ضرر و نقصان كو دور كيا جا سكے، اور يہ اكراہ و جبر كى ايك قسم ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو شخص اپنے ايمان كے بعد اللہ سے كفر كرے سوائے اس كے كہ جس پر جبر كيا جائے، اور اس كا دل ايمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ كھلے دل سے كفر كريں تو ان پر اللہ تعالى كا غضب ہے، اور انہى كے ليے بہت بڑا عذاب ہے النحل ( 106 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا اللہ تعالى نے ميرى امت سے بھول چوك اور خطا اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا معاف كر ديا ہے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2045 ) علامہ البانى رحمہ اللہ اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.
ليكن مسلمان شخص كو بچنا چاہيے كہ كہيں يہ شيطانى وسوسہ اور اس كى جانب سے مزين كردہ عمل، اور اس اپنے دوستوں كى طرف ڈرانا نہ ہو، اور واجبات و فرائض ميں كوتاہى اور انہيں چھوڑنے كى ابتدا كا سلسلہ تو نہيں.
اس ليے اپنے دل كے ساتھ سچائى ضرورى ہے كہ آيا يہ حقيقى ضرر و نقصان ہے يا نہيں ؟
اللہ تعالى آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے، اور حق پر ثابت قدم ركھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب