میں ایک بے نماز سے شادی شدہ ہوں ، یہ شادی محبت کی شادی تھی پھر اللہ تعالی نے مجھے ھدایت سے نوازا اوراب میں دین پر عمل کرتی ہوں وہ کوئي بھی نماز پڑھتا ہے تو ایسےکہ گویا اسے پڑھنے پر مجبورکیا گيا ہے ، میں نے بہت کوشش کی لیکن اس کا کوئي فائدہ نہیں ہوا ۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے چھوڑ دو لیکن ایسا کرنا آسان کام نہيں کیونکہ میرے تین بچے ہیں اورپھر وہ بچوں کے لیے ایک بہتر باپ کی حیثيت رکھتا ہے ، ہمارے مابین دین ہی کی مشکل ہے ، لھذا مجھے اس بارہ میں کیا کرنا چاہیے ؟
بے نماز کی بیوی کوکیا کرنا چاہیے
سوال: 4131
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے مندرجہ ذيل سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا :
میں ایک تارک نماز سے شادی شدہ ہوں پھر اللہ تعالی نے مجھے ھدایت سے نوازا تو میں اپنے خاوند سے نماز پڑھنے کا اصرار کرنے لگی تو وہ نماز پڑھنے لگا لیکن ایسے پڑھتا تھا کہ اسے مجبور کیا گيا ہے ، بلکہ وہ یہ صراحتا کہتا ہے کہ میں نماز تیرے لیے پڑھ رہا ہوں تو کیا میرا اس کے ساتھ رہنا جائز ہے کہ نہیں؟
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب عقد نکاح کے وقت وہ بے نماز تھا تو یہ نکاح صحیح نہیں ، تو اس بنا پر بیوی پر واجب ہے وہ اس سے علیحدہ ہو جائے ، اورجب وہ مسلمان ہو جائے تو پھر تجدید نکاح کرلے ، اورجب وہ مسلمان نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالی عورت کواس سے بہتر آدمی عطا کردے گا ۔
سوال : اورجب عورت نے شادی کی تو وہ خود بھی بے نماز تھی اورخاوند بھی بے نماز تھا تو کیا یہ شادی بھی باطل ہو گی ؟
جواب : جب وہ دین پر ہوں تو نکاح پرہی باقی رہیں گے ، لیکن اگر وہ دین پر نہیں بلکہ مرتد ہوں تو بہت سے علماء کرام نے یہ صراحت کی ہے مرتدوں کا نکاح صحیح نہیں ، کیونکہ وہ دین پر ہی قائم نہیں ، نہ تو وہ دین اسلام پر ہیں اور نہ ہی اس دین پر جس کی طرف مرتد ہوئے ہیں ۔
سوال : کیا نماز پڑھنے والے خاوند کی یہ صراحت کہ وہ صرف بیوی کے لیے نماز پڑھتا ہے مرتد ہونے کے لیے کافی ہے ، یا کہ ظاہر پر عمل کرتے ہوئے کہ وہ نماز پڑھتا ہے اس کے ساتھ ہی رہا جائے ؟
جواب : مجھے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بیوی کوخوش کرکے نماز اللہ تعالی کے لیے پڑھ رہا ہے ، وہ یہ نہیں چاہتا کہ نماز کا قیام ، رکوع ، سجود ، اورقنوت بیوی کے لیے ہو ، وہ نماز تو اللہ تعالی کےلیے ادا کررہا ہے تا کہ بیوی راضي ہو جائے تو اس سے مشرک نہیں ہوگا ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد