كيا سفر كے كوئى خاص آداب ہيں جن كا مسافر كو خيال ركھنا چاہيے اور خاص كر حج كے سفر ميں ؟
حج وغيرہ كے سفرى آداب
سوال: 41734
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسافر كے آداب بہت زيادہ ہيں، اور علماء كرام نے انہيں جمع كرنے كى كوشش كى ہے، اور ان علماء كرام ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى بھى شامل ہيں جنہوں نے اپنى كتاب " المجموع " ميں يہ آداب بہت اچھے طريقہ سے جمع كرتے ہوئے ان ميں سے باسٹھ آداب ذكر كيے ہيں جن ميں سے بعض آداب كو ذيل ميں اختصار كے ساتھ ذكر كرتے ہيں، ليكن جو شخص تفصيلى آداب معلوم كرنا چاہے وہ امام نووى كى كتاب" المجموع " ميں تفصيلى كلام كا مطالعہ كرسكتا ہے:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سفر كے آداب كے متعلق باب "
يہ باب بہت ہى زيادہ اہم ہے، جس كى بار بار ضرورت پيش آتى رہتى ہے اور اس كے اہتمام كى تاكيد اور بھى زيادہ ہو جاتى ہے.
يہاں مختصر آداب كى طرف اشارہ كرنا مقصود ہے:
1 – جب سفر كرنا چاہے تو اس كے ليے دينى طور پر بااعتماد شخص اور اس وقت سفر كرنے ميں سفرى علم ميں تجربہ كار شخص سے مشورہ كرنا مستحب ہے، اور مشورہ دينے والے شخص پر واجب ہوتا ہے كہ وہ مشورہ طلب كرنے والے شخص كے ساتھ خيرخواہى كرے اور اسے سچى نصيحت كرتا ہوا خواہشات وغيرہ سے پرہيز كرے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور معاملہ ميں ان كے ساتھ مشورہ كرو.
اور بہت سارى احاديث ميں ملتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كے معاملات ميں ان كے ساتھ مشورہ كيا كرتے تھے.
2 – جب اس نے سفر كرنے كا عزم كر ليا ہو تو وہ اللہ تعالى كے ساتھ استخارہ كرے اور فرضى نماز كے علاوہ دو ركعت نماز ادا كر كے استخارہ كى دعاء كرے.
3 – جب اس كا عزم حج يا جھاد يا كسى اور سفر كے ليے پختہ ہو جائے اور اس پر ٹھر جائے تو اسے سب معاصى اور گناہوں اور مكروہات سے توبہ كرنى چاہيے، اور مخلوق كے ساتھ جتنے بھى ظلم و ستم كيے ہوں ان سے برى الذمہ ہونے كے ليے ان حقوق كو ادا كرنا چاہيے، جتنا بھى ممكن ہو سكے قرض وغيرہ ادا كر دے، اور اس كے پاس جو امانتيں ركھى ہيں وہ مالكوں كو واپس پہنچائے، اور جس كے بھى اس كے ساتھ معاملات ہيں اس كے ساتھ معاملہ نپٹاتے ہوئے ختم كرے، اور اپنى وصيت لكھ كر اس پر گواہ بنائے اور جو حقوق اور قرض ادا نہيں كر سكا ان كا كسى كو وكيل بنادے تا كہ وہ اس كى جانب سے ادائيگى كردے، اور اپنے اہل وعيال اور جن كا نان و نفقہ اس كے ذمہ ہے ان كے ليے واپس پلٹنے تك خرچ چھوڑ كر جائے.
4 – اپنے والدين اور ہر اس شخص كو راضى كرے جس كى اطاعت اور فرمانبردارى و صلہ رحمى اس كے ذمہ ہے.
5 – جب حج يا جھاد وغيرہ كے ليے سفر كرے تو اس كے پاس زاد راہ حلال كمائى كا ہونا چاہيے، جو كہ خالصتا شبہ وغيرہ سے محفوظ ہو، اور اگر اس نے اس كى مخالفت كى اور غصب كردہ مال كے ساتھ حج يا جھاد كيا تو وہ نافرمانى كا مرتكب ہوا، اور ظاہرى طور پر تو اس كا حج اورجھاد صحيح ہے ليكن اس كا حج مبرور نہيں ہوا.
6 – حج وغيرہ كے سفر ميں مسافر كے ليے مستحب ہے كہ وہ زاد راہ زيادہ سے زيادہ اپنے ساتھ لے تا كہ وہ ضرورتمندوں كى بھى مدد كر سكے، اور اس كا يہ زادہ راہ پاكيزہ اور حلال ہو:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! اپنى كمائى ميں سے پاكيزہ اور اس ميں سے جو ہم نے زمين سے تمہارے ليے پيدا كيا ہے ( اللہ كى راہ ميں ) خرچ كرو، اور خراب اور گندى چيز خرچ كرنے كا قصد اور ارادہ مت كرو.
يہاں طيب اور پاكيزہ سے مراد جيد اور اچھى چيز ہے، اور خبيث سے ردى اور خراب چيز مراد ہے، اور جو وہ خرچ كر رہا ہے اسے دلى خوشى كے ساتھ خرچ كرنا چاہيے تا كہ وہ قبول ہو كيونكہ يہ قبوليت كے زيادہ قريب ہے.
7 – جب حج يا جھاد كے سفر كا ارادہ كرے تو اس كو ان كى كيفيت كى تعليم حاصل كرنى چاہيے كيونكہ يہ اس كے ليے ضرورى چيز ہے؛ كيونكہ جو عبادت كا طريقہ نہيں جانتا اس كى عبادت صحيح نہيں ہو گى، اور حج پر جانے والے شخص كے ليے مستحب ہے كہ وہ اپنے ساتھ ايسى كتاب ركھے جس ميں حج كو مكمل تفصيل كے ساتھ بيان كيا گيا ہو اور ميں مقاصد حج بيان ہوں اور اسے اس كتاب كا مطالعہ كرتے رہنے چاہيے، اور وہ سارا راستہ اس كتاب كا مطالعہ بار بار كرے تا كہ اسے اچھى طرح ياد ہو جائے.
اور عامۃ الناس ميں سے جس نے بھى اس ميں كمى و كوتاہى كى اور كتاب نہ ركھى اور نہ ہى حج كا طريقہ سيكھا تو خدشہ ہے كہ اس كے اركان ميں سے ايك ركن كى شرط ميں خلل كى بنا پر اس كا حج صحيح نہ ہو، اور ہو سكتا ہے كہ بعض لوگ مكہ كے عام لوگوں كى تقليد كرتے ہوئے اسى طرح اعمال حج كريں اور ان كا يہ خيال ہو كہ مكہ والے بالكل صحيح طرح حج كے اعمال جانتے ہيں اور وہ ان سے دھوكہ كھا جائے، جو كہ ايك فحش غلطى ہے.
اور اسى طرح غزوہ اور جھاد وغيرہ كرنے والے شخص كے ليے مستحب ہے كہ وہ اس موضوع ميں اپنے ساتھ كتاب ركھے جو اس كى ضرورى مضامين پر مشتمل ہوں، اور جھاد كرنے والا شخص ميدان جنگ ميں پيش آنے والے امور اور اذكار وغيرہ جان سكے، اور اسے علم ہو سكے كہ دھوكہ دينا، عورتوں اور بچوں كو قتل كرنا حرام ہے.
اور تجارتى سفر كرنے والے مسافر كو خريد و فروخت كے متعلقہ مسائل كى تعليم حاصل كرنا ضرورى ہے كہ اس كے ليے كونسى اشياء كى خريد و فروخت حلال ہے اور كيا حرام ہے، كس سے خريد و فروخت باطل ہوتى ہے اور كس سے صحيح …
8 – اسے سفر ميں كوئى ايسا رفيق سفر تلاش كرنا مستحب ہے جو خير وبھلائى پسند كرنے والا ہو اور شر سے دور بھاگے، اور اگر وہ بھول جائے تو رفيق سفر اسے ياد دہانى كرائے، اور اگر اسے ياد ہو تو اس ميں رفيق سفر اس كى معاونت كرے، اور اگر اس كے ساتھ ساتھ اسے كوئى عالم دين رفيق سفر ميسر ہو جائے تو اسے اس كا ساتھ نہيں چھوڑنا چاہيے، كيونكہ وہ اپنے علم اور عمل كى بنا پر اسے ہر برے كام سے منع كرے گا، مثلا برے اخلاق، اور ڈانٹ ڈپٹ كرنے سے، اور اخلاق فاضلہ اپنانے ميں اس كا ممد و معاون ثابت ہو گا اور اسے اس پر ابھارے گا.
پھر اسے چاہيے كہ وہ اپنے رفيق سفر كو پورے سفر ميں راضى ركھے اور دونوں ميں سے ہر ايك اپنے ساتھى كے ساتھ صبر و تحمل اور برداشت كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور وہ يہ سمجھے كہ اس كے ساتھ كو اس پر فضيلت حاصل ہے اور اسے حرمت حاصل ہے، اور بعض اوقات تھوڑى بہت بات پيش آجانے پر اسے صبر كرنا چاہيے.
9 – اس كے اپنے اہل و عيال اور دوست و احباب كو الوداع كہنا مستحب ہے، اور وہ اسے الوادع كريں اور ہر ايك دوسرے كو يہ دعاء دے:
" استودع اللہ دينك و امانتك و خواتيم عملك "
ميں تيرے دين، تيري امانت اور تيرے اعمال كے خاتموں كو اللہ كے سپرد كرتا ہوں.
اور مقيم شخص مسافر كو يہ دعا دے:
" زودك اللہ التقوى و غفر لك ذنبك و يسر الخير لك حينما كنت "
اللہ تعالى تجھے تقوى كے زاد راہ سے نوازے اور تيرے گناہ بخشے اور جہاں بھى تم ہو تمہارے ليے خير وبھلائى كو آسان بنائے.
10 – جب وہ اپنے گھر سے نكلے تو مندرجہ ذيل دعاء پڑھنى سنت ہے:
" بِاسْمِ اللَّهِ ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا بِاَللَّهِ ، اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ ، أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلِيَّ "
اللہ تعالى كے نام سے، ميں نے اللہ تعالى پر توكل كيا، اللہ تعالى كى مدد كے بغير نہ كسى چيز سے بچنے كى طاقت ہے نہ كچھ كرنے كى، اے اللہ ميں تيرى پناہ ميں آتا ہوں كہ ميں گمراہ ہو جاؤں يا مجھے كوئى گمراہ كر دے، يا ميں پھسل جاؤں يا پھسلا ديا جاؤں، يا ميں ظلم كروں يا مجھ پر ظلم كيا جائے، ميں جاہل بنوں يا مجھے كوئى جاہل بنا دے.
11 – جب وہ گھر سے نكلے اور سوارى پر سوار ہونا چاہے تو بسم اللہ كہہ كر اس كے ليے يہ دعاء پڑھنى سنت ہے:
" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ "
اس اللہ كى تسبيح ہے جس نے اسے ہمارے ليے مسخر كر ديا، ہم اسے باندھ نہيں سكتے تھے، اور يقينا ہم اللہ كى طرف لوٹنے والے ہيں.
پھر وہ تين بار الحمد للہ، اور تين بار اللہ اكبر كہے، اور يہ دعا پڑھے:
" سُبْحَانَكَ إنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلا أَنْتَ "
اے اللہ تو پاك ہے ميں نے اپنى جان پر ظلم كيا تو مجھے بخش دے، كيونكہ تيرے علاوہ گناہوں كو بخشنے والا كوئى نہيں.
اور پھر يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا , وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ , اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ , وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ , اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ , وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ , وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالأَهْلِ "
اے اللہ ہم اپنے اس سفر ميں تجھ سے نيكى اور تقوى كا سوال كرتے ہيں اور ہميں وہ عمل كرنے كى توفيق دے جن سے تو راضى ہوتا ہے، اے اللہ ہم پر اس سفر كو آسان بنا دے، اور اس كى دورى ہم سے لپيٹ دے، اے اللہ ہمارے سفر ميں تو ہمارا رفيق سفر ہے، اور اہل و عيال ميں ہمارا نگہبان ہے، اے اللہ ميں سفر كى تنگيوں اور برے مناظر اور مال اور اہل و عيال ميں ناكام لوٹنے سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں.
اور جب وہ سفر سے واپس پلٹے تو اس دعا كے ساتھ ان الفاظ كا اضافہ كرے:
" آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ "
ہم واپس لوٹنے والے، توبہ كرنے والے اور عبادت كرنے والے اور اپنے رب كى تعريف كرنے والے ہيں.
مقرنين كا معنى طاقت نہ ركھنا ہے، اور الوعثاء كا معنى سختى اور تنگى اور كآبۃ خوف وغيرہ سے نفس ميں تغير و تبدل ہے. اور المنقلب ، واپس پلٹنے كو كہتے ہيں.
12 – اكيلے سفر كى بجائے كچھ لوگوں كى جماعت كے ساتھ سفر كرنا مستحب ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر لوگوں كو اس كا علم ہو جائے جس كا مجھے علم ہے تو اكيلا آدمى رات كو سفر ہى نہ كرے"
صحيح بخارى .
13 – سفر ميں جانے والوں كے مستحب ہے كہ وہ اپنے ميں ايك شخص جو علم و عمل اور رائے ميں افضل شخص كو اپنا امير بنا كر اس كى اطاعت كريں.
ابو سعيد اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تين شخص سفر كے ليے نكليں تو انہيں اپنے ميں سے ايك شخص كو امير بنا لينا چاہيے.
يہ حديث حسن ہے، اسے ابو داود رحمہ اللہ نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
14 – رات كے آخرى حصہ ميں سفر كرنا مستحب ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم رات كے آخرى حصہ ميں سفر كرو كيونكہ رات كو زمين لپيٹ دى جاتى ہے"
اسے ابو داود نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے، اور حاكم نے روايت كرنے كے بعد كہا ہے: يہ صحيح اور بخارى و مسلم كى شرط پر ہے.
اور ايك روايت ميں ہے:
" مسافر كے ليے رات كو زمين لپيٹ دى جاتى ہے "
الدلجۃ رات كے آخرى حصہ ميں چلنے كو كہتے ہيں.
اور ايك معنى يہ بھى كيا گيا ہے كہ: سارى رات كا چلنا.
15 – اسے چاہيے كہ وہ نرمى اور حسن اخلاق كا مظاہرہ كرے، اور راستے ميں لوگوں سے جھگڑنے اور ازدھام كرنے سے اجتناب كرے، اور اپنى زبان كو سب و شتم اور غيبت و چغلى جيسى بيمارى اور جانوروں كو لعنت كرنے اور قبيح الفاظ سے اجتناب كرے.
16 – مسافر كے ليے مستحب ہے كہ جب وہ كسى اونچى زمين پر چڑھے تو اللہ اكبر كہے اور جب ڈھلوان سے نيچے اترے تو سبحان اللہ كہے.
17 – مسافر جب كسى آبادى كے قريب پہنچے اور وہاں داخل ہونا چاہے تو اس كے ليے مندرجہ ذيل دعاء پڑھنى سنت ہے:
" اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ أَهْلِهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ أَهْلِهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا "
اے اللہ ميں اس بستى اور اس بستى والوں اور اس ميں جو كچھ ہے اس كى بھلائى كا سوال كرتا ہوں، اور اس كے اور اس كے رہنے والوں اور اس ميں جو كچھ ہے اس كے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں.
18 – مسافر كے ليے مستحب ہے كہ وہ اكثر اوقات دعاء ميں بسر كرے كيونكہ سفر ميں دعاء قبول ہوتى ہے.
19 – مسافر كو طہارت و پاكيزگى اور صفائى كا خيال ركھنا اور اوقات مقررہ ميں نماز كى پابندى كرنى چاہيے، اور پھر اللہ تعالى نے تو مسافر كے آسانى كرتے ہوئے اسے پانى نہ ملنے كى حالت ميں تيميم كرنے اور نمازيں جمع كرنے اور قصر كر كے ادا كرنا جائز كيا ہے.
20 – جب كسى جگہ مسافر پڑاؤ كرے تو سنت يہ ہے كہ وہ مندرجہ ذيل دعاء پڑھے:
خولہ بنت حكيم رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" جو شخص كسى جگہ پڑاؤ كے ليے اترے اور پھر وہ مندرجہ ذيل دعاء پڑھے تو اسے وہاں سے كوچ كرنے تك كوئى چيز نقصان نہيں دے گى:
" أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ "
ميں اللہ تعالى كے مكمل كلمات كے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس چيز كے شر سے جو اس نے پيدا كي.
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.
21 – سفر ميں جو بھى اس كے رفيق سفر ہيں ان كے ليے اكٹھے پڑاؤ كرنا مستحب ہے، اور بغير كسى ضرورت كے ان كا عليحدہ عليحدہ پڑاؤ كرنا مكروہ ہے، اس كى دليل ابو ثعلبہ الخشنى رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
وہ بيان كرتے ہيں كہ لوگ جب كہيں پڑاؤ كرتے تو گھاٹيوں اور واديوں ميں بكھر جاتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارا ان واديوں اور گھاٹيوں ميں بكھر جانا يقينا يہ شيطان كى جانب سے ہے، تو اس كے بعد جب وہ كسى جگہ پڑاؤ كرتے تو وہ سب آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ مل جاتے.
اسے ابو داود رحمہ اللہ نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
22 – مسافر كے ليے سنت ہے كہ جب وہ اپنى ضرورت اور اپنا كام پورا كر لے تو وہ اہل و عيال كے پاس واپس جانے ميں جلدى كرے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے، جو تمہيں كھانے پينے سے منع كر ديتا ہے لہذا جب تم ميں سے كوئى ايك سفر سے اپنى ضرورت اور كام مكمل كر لے تو وہ اپنے اہل و عيال كى جانب ( جانے ميں ) جلدى كرے"
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے، نھمتہ كا معنى اس كا مقصد ہے.
23 – سفر سے واپسى ميں سنت يہ ہے كہ مندرجہ ذيل پڑھے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى غزوہ يا حج يا عمرہ سے واپس پلٹتے تو ہر اونچى جگہ پر چڑھتے ہوئے تين بار اللہ اكبر كہتے اور پھر وہ يہ دعاء پڑھتے:
" لا إلَهَ إلا اللَّهُ ، وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ , آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ , وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ "
اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اسى كے ليے بادشاہى اور حمد ہے، اور وہ ہر چيز پر قادر ہے، ہم واپس لوٹنے والے، توبہ كرنے والے، عبادت كرنے والے، سجدہ كرنے والے، اپنے رب كى حمد كرنے والے ہيں، اللہ تعالى نے اپنا وعدہ سچ كر دكھايا، اور اپنے بندے كى مدد كى اور اكيلے ہى سب لشكروں كو شكست سے دوچار كر ديا"
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ واپس آئے اور جب مدينہ كے پيچھے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" , آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ "
ہم واپس لوٹنے والے توبہ كرنے والے، عبادت كرنے والے، سجدہ كرنے والے ہم اپنے رب كى حمد بيان كرنے والے ہيں.
وہ يہ دعاء پڑھتے رہے حتى كہ ہم مدينہ پہنچ گئے.
اسے مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
24 – جب اپنے گھر پہنچے تو سنت طريقہ يہ ہے كہ گھر جانے سے قبل اپنے قريب ترين مسجد ميں جا كر آنے كى نيت سے دو ركعت نماز ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس تشريف لاتے تو مسجد سے ابتدا كرتے اور مسجد ميں دو ركعت ادا كر كے وہاں بيٹھ جاتے"
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
25 – مسافر كے آنے كى وجہ سے كھانا تيار كرنا مستحب ہے، اور اس كا اطلاق آنے والے مسافر كا خود كھانا تيار كرنا، يا اس كے ليے كسى دوسرے كا كھانا تيار كرنے پر ہوتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے مدينہ تشريف لائے تو اونٹ يا گائے ذبح كى "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
26 – عورت كے ليے بغير كسى ضرورت بغير محرم كے سفر كرنا حرام ہے چاہے سفر قريب كا ہو يا دور كا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھنے والى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ ايك دن اور رات كا سفر بغير محر كے كرے"
صحيح بخارى اور صحيح مسلم.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كى كلام كچھ تصرف كے ساتھ ختم ہوئى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 264 – 287 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" حج كے سفر كے آداب دو قسموں ميں منقسم ہوتے ہيں:
واجب كردہ آداب اور مستحب آداب:
واجب كردہ آداب:
يہ كہ انسان حج كے واجبات اور اركان كى ادائيگى كرے، اور خاص كر احرام كى ممنوعہ اشياء اور عام ممنوع كردہ امور سے اجتناب كرے، جو كہ احرام يا بغير احرام كے ممنوع ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
حج كے مہينے معلوم ہيں، جو كوئى بھى ان ميں حج فرض كر لے نہ تو وہ بيوى سے ہم بسترى كرے اور نہ ہى بے ہودہ گوئى اور فسق و فجور اور دوران حج لڑائى جھگڑا كرے البقرۃ ( 197).
اور سفر حج ميں مستحب آداب يہ ہے:
انسان ہر وہ كام كرے جس كا اس كے ليے كرنا ضرورى ہے، مثلا مال اور جان اور مرتبہ ميں سخاوت كرتے ہوئے اپنے بھائيوں كى خدمت بجا لائے اور ان كے ساتھ برے سلوك سے اجتناب كرے، اور ان كى تكليف پر صبر و تحمل كا مظاہرہ كرے، اور ان كے ساتھ احسان كرتا رہے، چاہے يہ احرام كے بعد ہو يا احرام پہننے سے قبل، كيونكہ يہ بلند مرتبہ اور فاضل قسم كے آداب ہيں جو ہر مومن مرد و عورت سے ہر وقت اور ہر جگہ مطلوب ہيں.
اور اسى طرح عبادت كرتے وقت بھى مستحب آداب ہيں، مثلا انسان كو حج مكمل طريقہ سے كرنا چاہيے، اس ليے اسے قولى اور فعلى آداب مكمل كرنے كى حرص ركھنى چاہيے" انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 16 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب