ميں جانتا ہوں كہ مقروض شخص پر حج واجب نہيں، كيا يہ لمبى مدت والے مقروض شخص پر بھى منطبق ہوتا ہے؟
بعض لوگوں پر جائداد بنك كا قرض ہوتا ہے جس كى ادائيگى بعض اوقات سارى عمر بيت جاتى ہے، تو كيا اس پر حج واجب ہے ؟
كيا لمبى مدت كے مقروض شخص حج كر سكتا ہے ؟
سوال: 41739
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
" اگر تو قرض كا وقت آ پہنچا ہو تو اسے حج پر مقدم كيا جائيگا كيونكہ وہ وجوب حج سے قبل ہے، اس ليے پہلے قرض ادا كيا جائيگا اور پھر حج اور اگر قرض كى ادائيگى كے بعد اس كے پاس كچھ نہ بچے تو اسے انتظار كرنا چاہيے حتى كہ اللہ تعالى اسے غنى اور مالدار كر دے.
اور اگر قرض نظامى اور لمبى مدت والا ہو اور انسان كو واثق اميد ہو كہ وقت آنے پر وہ قرض ادا كر سكتا ہے، تو اس حالت ميں قرض وجوب حج ميں مانع نہيں، چاہے قرض خواہ اسے حج كى اجازت دے يا نہ دے، اور اگر قرض ادا كرنے كى قدرت كى ضمانت نہ دے سكتا ہو تو اسے قرض كى مدت كا انتظار كرنا چاہيے.
تو اس بنا پر ہم يہ كہينگے:
جو شخص جائداد بنك كا مقروض ہو اگر اسے علم ہو كہ وقت آنے پر وہ قرض ادا كر سكتا ہے تو اس پر حج واجب ہے، چاہے وہ مقروض ہو كيوں نہ ہو.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 96 ).
مزيد تصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 36852 ) كا جواب ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات