كيا حج پر جانے كے ليے والدين كى اجازت لينا واجب ہے ؟
كيا حج پر جانے كے ليے والدين كى اجازت لينا واجب ہے ؟
سوال: 41950
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” اگر فرضى حج ہو تو پھر والدين كى نہ تو رضامندى كى شرط ہے اور نہ ہى ان كى اجازت لينا، بلكہ اگر وہ اسے حج كرنے سے منع كريں اور حج فرضى ہو تو اس كے ليے حج كرنا واجب ہے، اور اس ميں اسے ان كى اطاعت نہيں كرنى چاہيے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں تجھے ميرے ساتھ شرك كرنے پر ابھاريں جس كا تجھے علم نہ ہو تو ان كى اطاعت نہ كر، اور دنيا ميں ان كے ساتھ حسن سلوك كرو لقمان ( 15 ).
اور اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” خالق كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں ہوسكتى ”
ليكن اگر حج نفلى ہو تو اسے مصلحت كو ديكھنا چاہيے، اگر اس كى ماں اور باپ اس كے بغير نہيں رہ سكتے اور صبر نہيں كر سكتے كہ وہ ان سے غائب ہو تو پھر ان كے پاس رہنا اولى اور بہتر ہے.
كيونكہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جھاد پر جانے كى اجازت مانگى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
” كيا تيرے والدين زندہ ہيں ؟ “
تو اس شخص نے جواب ميں عرض كيا: جى ہاں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ان دونوں ميں جھاد كرو”
لہذا فرضى حج ميں ان كى اطاعت نہيں كى جائيگى، اور نفلى حج ميں ديكھا جائےگا كہ مصلحت كس ميں زيادہ ہے ” انتہى
واللہ اعلم .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 68 )