كيا ميرے ليے ايسے ملك ميں وكالت كا پيشہ اختيار كرنا جائز ہے جہاں غير اسلامى قوانين نافذ ہوں؟
اور كيا ميرى آمدن حلال ہو گى يا حرام ؟
غير شرعى قوانين نافذ كرنے والى حكومت ميں وكالت كا پيشہ اختيار كرنے كا حكم
سوال: 42521
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
وضعى قوانين نافذ كرنے والے ملك ميں كسى بھى مقدمہ ميں دوسرے شخص كى جانب سے وكالت كرنے والے شخص كو شريعت اسلاميہ كے بخلاف عرف عام ميں وكيل كا نام ديا جاتا ہے، تو ہر وہ معاملہ جس ميں جان بوجھ كر باطل كا دفاع كيا جائے اور اس كے دفاع ميں وضعى قوانين كو دليل بنايا جائے تو اسے حلال سمجھنے كى صورت ميں وہ شخص كافر ہو گا، يا پھر وہ باطل كار اور بے پرواہ ہے جسے لوگوں كے بنائے ہوئے وضعى قوانين كا كتاب و سنت كے مخالف ہونے كى پرواہ تك نہيں، اور اس پر لى جانے والى اجرت حرام ہو گى.
اور ہر وہ معاملہ جس ميں باطل كا علم ركھنے اور حرمت كا اعتقاد ركھنے كے باوجود اس كا دفاع كرے، ليكن اسے اس كا پر طمع اور لالچ نے ابھارا كہ وہ اس سے اجرت حاصل كرے تو وہ شخص گنہگار ہے، اور بہت بڑے اور كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، اور اس پر حاصل كي جانے والى اجرت بھى حرام ہو گى.
ليكن اگر اس نے اپنے موكل كا كسى معاملہ ميں يہ اعتقاد ركھتے ہوئے دفاع كيا كہ وہ شرعى طور پر حقدار ہے، اور اس ميں اس نے اپنى معلومات كے مطابق شرعى دلائل كے ساتھ كوشش اور جدوجھد بھى كى، تو اسے اس كام پر اجرو ثواب حاصل ہوگا، اور وہ اپنى غلطيوں ميں معذور شمار ہو گا، اور اس كے دفاع پر اجرو ثواب كا مستحق ٹھرے گا.
اور وہ شخص جس نے اپنے كسى بھائى كے حق كا واقعتا دفاع كيا اور اس كا اعتقاد بھى ہو كہ يہ حق اور صحيح ہے تو اسے اس كا ثواب حاصل ہو گا، اور وہ اپنے موكل كى جانب سے طے كردہ اجرت كا بھى مستحق ہے. اھـ .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 497 )