اسلامى عدالتى نظام ميں ايك وكيل كا مقام ومرتبہ كيا ہے، كيونكہ جيسا كہ عادت بن چكى ہے كہ وكيل ہر طريقہ اور وسيلہ سے يہ كوشش كرتا ہے كہ فيصلہ اس كے موكل كے حق ميں ہو ؟
قضاء اسلامى ( عدالتى ) كے نظام ميں وكالت كا پيشہ اختيار كرنا
سوال: 42523
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قضاء اسلامى ميں ايك وكيل كا مقام يہ ہے كہ وہ فريقين ميں سے مدعى يا مدعى عليہ كا دفاع كرنے كا وكيل ہے، وكيل اور اس كے موكل كو چاہيے كہ وہ طلب حق ميں اعتدال سے كام ليں، اور دوسرے فريق سے انصاف كريں، اگر وہ اس پر كاربند رہيں اور اس كا التزام كريں تو اس ميں ان دونوں كے ليے بہترى ہے.
اور ايسا كرنے ميں حاكم اور جھگڑوں كے فيصلے كرنے ميں بھى مدد ملے گى، اور اگر جھگڑا كرنے والے يا اس كے وكيل نے دھوكہ اور فراڈ كے علاوہ كچھ نہ چاہا اور مقدمے ميں غلبہ حاصل كرنے كى رغبت ركھى، چاہے يہ غلبہ باطل اور غلط طريقہ سے ہى كيوں نہ ہو، اور صرف كمائى كرنا ہى مقصود ہو چاہے حرام طريقہ سے ہى كيوں نہ ہو، تو اس صورت ميں وہ دونوں گنہگار ہونگے، اور لوگوں كا مال ناحق كھائيں گے.
اور اس كے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالى قاضى كو اپنى رحمت اور فضل سے ہدايت نہ دے اور سيدھے راہ كى جانب اس كى راہنمائى نہ كرے تو قاضى كو بھى ورطہ حيرت اور دھوكہ ميں ڈال ديں گے، وہ صرف اللہ كى رحمت سے ہى مقدمے كا فيصلہ حق كے ساتھ كر سكے گا.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 32 / 501 )