میرے والد صاحب مجھ سے ہروقت مال کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور مطالبات کی کثرت سے مجھے تنگ کرتے ہیں حالانکہ میں بھی صاحب عیال ہوں میری بھی کچھ ضروریات ہیں تومجھ پر کس حد تک یہ واجب ہے کہ میں اپنے والد کورقم دوں نیزمندرجہ ذیل حدیث کا معنی کیا ہے ؟
( آپ اورآپ کا مال بھی آپ کے والد کا ہے )
بیٹا کثرت عیال کا مالک ہے اوروالد اس سے بکثرت مطالبات کر کے تنگ کرتا ہے
سوال: 4282
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے :
جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال بھی ہے اوراولاد بھی اورمیرا والد میرا مال لینا چاہتا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تو اورتیرا مال تیرے والد کا ہے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2282 ) الزاوئد میں ان کا کہنا ہے کہ اس حديث کی سند صحیح ہے اوراس کے رجال ثقہ اوربخاری کی شرط پر ہے ۔
اورحدیث میں ( یجتاح ) کے لفظ کا معنی ہے کہ وہ اپنی ضروریات میں بیٹے کا سارا مال صرف کردے اوربیٹے کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑے ۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اپنی کتاب ” مصنف ” میں باب باندھتے ہوۓ کہتے ہیں ( اس شخص کے بارہ میں جواپنے بیٹے کا مال لے لے ) اوراس کے بعد حدیث بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں :
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( انسان کا سب سے اچھا کھانا وہ ہے جواپنی کمائی سے کھاۓ اوراس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہی ہے ) ۔
محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے والد کے ساتھ مال کا جھگڑا لے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( تواورتیرا مال تیرے والد کے ہی ہیں ) ۔
ایک روایت میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : کوئ بھی شخص اپنے بیٹے کے مال سے جوچاہے کھا سکتا ہے اوربیٹا اپنے والد کے مال سے اس کی اجازت کےبغیر نہیں کھا سکتا ۔
اورسعید بن مسیب رحمہ اللہ تعالی عنہ کا بھی کہنا ہے کہ :
والد اپنے بیٹے کےمال سے جوچاہے کھا سکتا ہے ، اوربیٹا اپنے والد کے مال سے والد کی خوشی و رضا مندی کے بغیر نہیں کھا سکتا ۔
ابن جریج رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
عطاء رحمہ اللہ اس میں کوئ حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ کوئ شخص اپنے بیٹے کے مال سے جوچاہے بغیر ضرورت کے لے لے ۔
پھرابن جریج رحمہ اللہ تعالی اس کے بعد کہتے ہیں :
جوکوئ یہ کہے کہ : والد اپنے بیٹے کے مال کوبیٹے کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتا ۔
ابن سیرین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
بیٹے پر ضروری ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ احسان اورنیکی کا برتاؤ کرے اورہرانسان اپنی چيز کا زيادہ حقدار ہے ۔
سالم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ تعالی عنہ نے اونٹ ذبح کیا توایک سوالی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا توعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سوالی کوکہنے لگے یہ میرا اونٹ تونہیں ؟
توحمزہ رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے ابا جان آپ کواجازت ہے جسے چاہیں اس اونٹ کا گوشت کھلائيں ۔
اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں اس مسئلہ کی شرح کرتے ہوۓ کہا ہے :
والد کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹے کے مال سے جو چاہے لے اوراسے اپنی ملیکت بنا لے چاہے اس کی اسے ضرورت ہویا یہ نہ ہو ، اورچاہے بیٹا چھوٹا ہویا بڑا ، لیکن باپ اپٹے بیٹے کا مال دوشرطوں کے ساتھ لے سکتا ہے ۔
ایک شرط تویہ ہے کہ وہ بیٹے کوطاقت سے زيادہ تکلیف نہ دے اورنہ ہی اسے مارے اورنہ ہی وہ چيز لے جوبیٹے کی ضرورت ہو ۔
دوسری شرط یہ ہے کہ : وہ ایک بیٹے سےمال لیکر دوسرے بیٹے کونہ دے
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس پر نص بیان کی ہے ۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ اولاد میں سے بعض کوخاص کرلینا اورکچھ کو دینا اورکچھ کونہ دینا صحیح نہیں اوراس تخصیص سے کسی ایک بیٹے کا مال لیکر دوسرے کودینا بالاولی ممنوع ہے ۔
اورامام ابوحنیفہ امام مالک اورامام شافعی رحمہم اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ: والد کویہ حق نہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ بیٹے کا مال لے لے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ تمہارے مال اورتمہاری عزت ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح کہ اس مہینہ میں آج کا یہ دن حرمت والا ہے ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔
اورایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی مسلمان کا مال کسی کے لیے بھی اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ) سنن دارقطنی ۔
اوراس لیے بھی کہ بیٹے کی ملکیت اس کے اپنے مال پر تام اورمکمل حیثیت کی ہے لھذا اسے چھیننا جائز نہیں مثلا جوچيزاس کی ضرورت کے متعلقہ ہے ۔
اوراس میں ہماری دلیل وہ حدیث ہے جسے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے روایت کیا ہے ۔
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بلاشبہ تمہارا سب سے اچھا کھانا تمہاری اپنی کمائی سے ہے اورتمہاری اولاد تمہاری کمائی میں سے ہی ہے ) اسے سعید اور سنن ترمذی میں بیان کیا گيا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی عنہ نےاسے حسن قرار دیا ہے ۔
اورعمرو بن شعیب نے اپنے والد اوروہ اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا : میرے والد نے میرا تمام مال چھین لیا ہے ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تواورتیرامال تیرے والد کا ہی ہے ) اسے امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب معجم میں بیان کیا ہے اوران کے علاوہ دوسروں نے بھی روایت کیا اوریہ الفاظ زیادہ کیے ہیں :
( بلاشبہ تمہاری اولاد تہماری اچھی اوربہتر کمائی میں سے ہے لھذا ان کے مال میں سے تم بھی کھاؤ ) ۔
محمد بن منکدر اورمطلب بن حنطب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا : میرے پاس اولاد اورمال بھی ہے اورمیرے والد کے پاس بھی مال اوراولاد ہے ، اورمیرے والد چاہتے ہيں کہ میرا مال بھی لے لیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :
( تواور تیرا مال بھی تیرے والد کا ہے ) اسے سعید رحمہ اللہ تعالی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے ۔
اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے اولاد کووالد کے لیے کہ ھبہ کیا ہوا قرار دیتے ہوۓ فرمایا :
اورہم نے اسے ( یعنی ابراھیم علیہ السلام ) اسحق اور یعقوب ( علیہم السلام ) ھبہ کیے ۔
اورایک دوسری جگہ پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
اورہم نے اسے یحیی ( علیہ السلام ) ہبہ کیا اورزکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ اس طرح عرض کیا :
اے اللہ مجھے اپنی طرف سے کوئ میرا وارث ھبہ کردے ۔
اورابراھیم علیہ السلام نے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :
اس اللہ تعالی کی حمد وتعریف ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اوراسحاق علیہماالسلام ھبہ کیے ۔
توجسے جوچیز ھبہ کی گئي ہو اس کا مال لینا بھی اس کے غلام کی طرح ہی ہے ۔ دیکھیں المغنی ابن قدامہ جلد ( 5 ) ۔
اورمفتی شيخ محمد بن ابراھیم بن عبداللطیف آل شيخ رحمہ اللہ تعالی کے رسائل اورفتاوی میں مندرجہ ذیل قول ہے :
والد کے لیے اپنے بیٹے کا مال لینا جائز ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ( تواورتیرا مال تیرے والد کا ہی ہے ) اسے پانچ نے روایت کیا اورامام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورایک دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تمہارا سب سے اچھا کھانا وہ ہے جو تمہاری کمائي کا ہو اورتمہاری اوراولاد بھی تمہاری کمائي ہے ) اسے ترمذی ، نسائ اورابن ماجہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ہے ۔
والد بیٹے کا مال چھـ شروط کے ساتھ لے سکتا ہے :
پہلی : وہ چيزلے جو اسے ضرر نہ دے اورجس کی اسے ضرورت نہ ہو ۔
دوسری : ایک بیٹے سے لیکر کسی اوربیٹے نہ کو نہ دے ۔
تیسری : یہ کام دونوں میں سےکسی ایک کی بھی مرض الموت میں نہ ہو ۔
چوتھی : والدکافراوربیٹا مسلمان نہ ہو ۔دین کا اختلاف نہ ہو
پانچویں : یہ کہ وہ چيز بعینہ موجود ہو ۔
چھٹی : بیٹے کا مال والد کی نیت اوریا پھر قول سے قبضہ کرنے پراس کی ملکیت بن جاتا ہے ۔
ہمارے فقھاء رحمہم اللہ تعالی کی کلام یہی ہے اورفتوی بھی اسی پر ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی و رسائل شیخ محمد بن ابراھیم آل شيخ ص ( 220 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد