ہمارے گاؤں ميں قبروں اہانت ہونے لگى ہے، وہ اس طرح كہ قبرستان اونٹوں، گائيوں، اور بكريوں اور گاڑيوں كا راستہ بن گيا ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ افسوس اور خطرناك بات تو يہ ہے كہ بعض لوگوں نے وہاں عمارتيں بنانى شروع كردى ہيں، لھذا اس سلسلے ميں آپ كيا راہنمائى كرتے ہيں ؟
قبروں كى توہين كرنا جائز نہيں
سوال: 4309
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ جائز نہيں، كيونكہ قبرستان ميں جب تك مردوں كى ہڈياں وغيرہ موجود ہيں وہاں اس طرح كى اشياء بنانا اور اسے عام شاہراہ بنا لينا جائز نہيں ہے، كيونكہ ميت كى حرمت بھى زندہ كى حرمت جيسى ہى ہے، لھذا قبرستان كو روند كر يا اسے راستہ بنا كر اس كى توہين كرنا جائز نہيں.
اور نہ ہى وہاں نماز پڑھنى جائز ہے، اور نہ ہى قبرستان كو عام رہائشى جگہ ميں شامل كرنا صحيح ہے، بلكہ يہ سب كچھ ناجائز ہے، ليكن جب قبرستان ميں موجود فوت شدگان كى ميتيں مٹى بن چكى ہوں اور ان كى كوئى چيز باقى نہ بچى ہو اور نہ ہى وہاں كسى قبر ميں ميت كا جسم وغيرہ ہو، تو يہ اور بات ہے، تو اس حالت ميں ہو جانے كے بعد اسے كھيت، يا گھر وغيرہ بنانے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن جب اس ميں مردے دفن ہوں اور وہاں ان كى باقيات موجود ہوں تو پھر اس كا استعمال اور وہاں شارع عام بنانا جائز نہيں، كيونكہ مسلمان شخص كى ميت تم سے پہلے اس جگہ جا چكى ہے، اور وہ پہلے جانے كى بنا پر اس كى زيادہ حقدار ہے، اور اس كى حرمت بھى ہے، لھذا اس كى حرمت اسى طرح قائم ہے جس طرح اس كے زندہ ہونے كى حالت ميں تھى.
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو قبريں روندتے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:
" تم ميں سے كوئى ايك شخص كسى انگارے پر بيٹھے اور اس كے كپڑے جل جائيں اور اس كى جلد بھى يہ اس كے ليے قبر پر بيٹھنے سے زيادہ بہتر ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 9711 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3228 ).
تو يہ ڈراوا اور تحذير اس ليے ہے كہ اس كام ميں مسلمان كى توہين تھى، اور علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ قبرستان ميں قضائے حاجت حرام ہے، اور قبروں پر بيٹھنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قبروں پر نہ بيٹھو اور نہ ہى اس كى جانب رخ كر كے نماز پڑھو"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 972 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3229 ).
اور نہ تو اس پر ٹيك لگانى جائز ہے، اور نہ ہى پاؤں كے ساتھ قبر كو روندنا يا اس كى اہانت كرنا، يہ سب كچھ ناجائز ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ماخذ:
فتاوى فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن حميد صفحہ نمبر ( 161 )