0 / 0

صدقہ جاريہ اور عام صدقہ ميں فرق

سوال: 43101

كيا صدقہ جاريہ اور عام صدقہ ميں كوئى فرق ہے؟

اور اگر كوئى فرق ہے تو ہم چاہتے ہيں كہ صدقہ جاريہ اور عام صدقہ كى كچھ مثاليں بيان كى جائيں، اور اگر صدقہ جاريہ تباہ ہو جائے، مثلا اگر كسى شخص نے كوئى مسجد تعمير كى اور پھر يہ مسجد منہدم كر دى گئى تو كيا اسے اس كا ثواب قيامت تك ملتا رہے گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

صدقہ جاريہ وقف كو كہا جاتا ہے، اور اس كى كئى ايك صورتيں ہيں: اور اس كا قاعدہ اورضابط يہ ہے كہ:

اصل چيز كو روك كر ركھا جائے اور اس كا فائدہ اور نفع اللہ كے راستے ميں صرف ہو.

جيسا كہ بخارى اور مسلم كى مندرجہ ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو خيبر ميں كچھ زمين ملى تو وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اس بارہ ميں مشورہ كرنے آئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے خيبر ميں زمين ملى ہے، اتنا قيمتى مال مجھے كبھى بھى نہيں ملا تو آپ اس كے بارہ ميں كيا كہتے ہيں؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اگر تم چاہو تو اس كى اصل روك كر اسے صدقہ كر دو ”

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے صدقہ كر ديا كہ اسے نہ تو فروخت كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى اسے ہبہ كيا جائے اور نہ ہى وراثت ميں ليا جائے گا، اور اسے فقراء و مساكين اور رشتہ دار اور غلاموں، اور اللہ تعالى كے راستے اور مسافروں اور مہمانوں ميں صدقہ كر ديا، اس كى ديكھ بھال كرنے والے كے ليے اس ميں سے اچھے طريقہ سے كھانے ميں كوئى حرج نہيں، اور بغير كسى مليكت ميں ليے كھايا جائے”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2737 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1633 )

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” مومن كو اس كى نيكيوں اور اعمال ميں سے اس كى موت كے بعد جو كچھ پہنچتا ہے اس كا وہ علم ہے جو اس نے پھيلايا اور لوگوں كو تعليم دى، اور نيك اور صالح اولاد چھوڑى، اور مصحف وراثت ميں چھوڑا، يا كوئى مسجد تعمير كروائى، يا مسافروں كے ليے كوئى مسافرخانہ تعمير كروايا، يا نہر كھدوائى، يا اپنے مال سے صحت اور زندگى ميں كوئى صدقہ كيا، تو يہ اسے اس كى موت كے بعد ملے گا ”

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 242 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

لہذا صدقہ جاريہ مسجد تعمير كروانے، يا قرآن مجيد خريد كر مسجد ميں ركھنے، يا كوئى گھر اور دوكان بنا كر صدقہ كردے كہ اس كا منافع اور فائدہ فقراء و مساكين اور رشتہ داروں، طالب علموں، يا جس كے ليے وقف كرنے والا محدد كردے صرف كيا جائے، يا كسى خيراتى ہسپتال ميں حصہ ڈال دے.

اور عام صدقہ جو صدقہ جاريہ نہ ہو وہ صدقہ ہے: جس ميں اصل چيز كو روكا نہ گيا ہو، بلكہ وہ اصل ملكيتا ہى فقير كو ديا جائے اور فقير اسے اپنى ملكيت ميں لے كر جس طرح چاہے اس سے فائدہ حاصل كرے، مثلا اسے مال دے دے، يا غلہ، يا لباس، يا دوائى، يا بستر وغيرہ دے دے.

اور جس شخص نے كوئى مسجد تعمير كروائى اور وہ منہدم يا خراب ہو گئى تو اس كا كچھ حصہ فروخت كرنا جائز ہے تا كہ باقى حصہ تعمير كيا جا سكے، اور اگر اس كى كسى چيز سے بھى فائدہ حاصل كرنا ممكن نہ ہو تو وہ سارى ہى فروخت كر دى جائے اور اسے كسى اور وقف ميں شامل كر ديا جائے گا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مسئلہ: وہ كہتے ہيں: ( اور جب وقف خراب ہو جائے، اور كچھ بھى نہ لائے، اسے فروخت كر كے اس كى قيمت سے ايسى چيز خريدى جائے گى جو اہل وقت كے ليے فائدہ لائے، اور اسے بھى پہلے وقف كى طرح ہى وقف كيا جائے گا.

اور اسى طرح روكا ہوا گھوڑا اگر جنگ كے ليے صحيح نہ رہے تو اسے بھى فروخت كر ديا جائےگا اور اس كى قيمت سے جھاد كى مصلحت كى اشياہ خريدي جائيں گى )

اجمالا يہ كہ: اگر وقف خراب ہو جائے، اور اس كا فائدہ اور منافع ختم ہو جائے مثلا گھر منہدم ہو جائے، يا زمين بنجر ہو جائے، اور اسے آباد كرنا ممكن نہ ہو، يا ايسى مسجد جہاں كے رہائشى لوگ كسى اور بستى ميں منتقل ہو گئے ہوں اور وہ مسجد ايسى جگہ رہ جائے جہاں اس ميں كوئى بھى نماز ادا كرنے والا نہ رہے، يا پھر مسجد تنگ ہو جائے اور اسى جگہ اس كى توسيع كرنا ممكن نہ ہو، يا وہ سارى بوسيدہ ہو جائے اور اسے تعمير كرنا ممكن نہ رہے، اور نہ ہى اس كا كچھ حصہ فروخت كيے بغير اس كا كچھ حصہ تعمير ہو سكتا ہو تو اس حالت ميں اس كا كچھ حصہ فروخت كر كے باقى حصہ كو تعمير كرنا جائز ہے، اور اگر اس كى كوئى بھى چيز كار آمد نہ رہے تو سارى كو فروخت كرنا جائز ہے.

ابو داود رحمہ اللہ كى روايت ميں امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگرمسجد ميں دو لكڑياں ہوں اور ان كى قيمت ہو تو انہيں فروخت كرنا اور اس كى قيمت مسجد پر صرف كرنا جائز ہے.

اور صالح كى روايت ميں كہتے ہيں:

چوروں كے ڈر سے مسجد تحويل ہو سكتى ہے، اور جب وہ گندى جگہ ميں ہو.

قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يعنى اگر يہ اس ميں نماز ادا كرنے ميں مانع ہو، اور اس كے صحن كى فروخت كا جواز بيان كيا ہے.

اور عبد اللہ كى روايت ميں ہے:

اور اس ميں امام كى گواہى ہو گى ) انتہى

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 5 / 368 ).

اور جب تك وقف باقى ہے، وقف كرنے والے كو اس كا اجروثواب پہنچتا رہے گا، اور اسى طرح اگر وقف كو فروخت كر كے كسى دوسرے وقف ميں شامل كر ديا جائے تو بھى ثواب ملتا رہے گا.

اور جس شخص نے مسجد تعمير كروائى تو اسے وہ اجروثواب حاصل ہو گا جس كا وعدہ كيا گيا ہے، اور وہ مندرجہ ذيل فرمان نبوى ميں ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے اللہ تعالى كے ليے مسجد تعمير كروائى اگرچہ پرندے كے انڈہ دينے جتنى جگہ ميں تو اللہ تعالى اس كے ليے جنت ميں گھر بنائےگا ”

قطاۃ: پرندے كى ايك قسم ہے.

المفحص: وہ جگہ جہاں پرندہ اپنا انڈہ چھپاتا ہے.

حديث ميں كم از كم جگہ كى مثال بيان كرنا مقصود ہے.

مسند احمد حديث نمبر ( 2157 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android