خاوند كى اطاعت كو كتنى اہميت حاصل ہے ، كيا خاوند كى اطاعت عورت كے بہنوں اطاعت سے زيادہ اہم ہے ؟
بيوى كى اطاعت كس پر واجب ہوتى ہے، اور كيا خاوند كى اطاعت ميرے والدين اور بہنوں كى اطاعت سے زيادہ اہم ہے ؟
خاوند كى اطاعت والدين اور بھائيوں كى اطاعت پر مقدم ہے
سوال: 43123
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ حق حاصل ہے، اور بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنے اور خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا گيا ہے، بيوى كو اپنے والدين اور بہن بھائيوں سے بھى اپنے خاوند كو مقدم ركھنے كا حكم ہے، بلكہ خاوند تو بيوى كى جنت اور جہنم ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى شامل ہے:
مرد عورتوں پر نگران و حكمران ہيں، اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو ( آنے كى ) اجازت نہ دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا رقمطراز ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنى خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے كہ وہ خاوند كى شہوت پورى كرے تو پھر بالاولى يہ واجب ہے كہ اس سے بھى اہم چيز يعنى خاوند كى اولاد كى تربيت ميں خاوند كى اطاعت كرے، اور اپنے گھر كى اصلاح ميں خاوند كى بات مانے، اور اسطرح دوسرے حقوق اور واجبات ميں بھى خاوند كى اطاعت كرے " انتہى
ماخوذ از: آداب الزفاف ( 282 ).
ابن حبان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى ہو تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 660 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى اوفى سے بيان كيا ہے كہ جب معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سجدہ كيا چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:
معاذ يہ كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو انہيں ديكھا كہ وہ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں آيا كہ ہميں تو ايسا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كرنا چاہيے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو اسے انكار نہيں كرنا چاہيے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
القتب: كا معنى اونٹ پر ركھا جانے والا چھوٹا سا پالان ہے.
مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں حصين بن محصن سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں تو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:
كيا تمہارا خاوند ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے جيد كہا ہے.
اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: بيوى اگر خاوند كا حق ادا كرتى ہے تو خاوند بيوى كے جنت ميں داخل ہونے كا سبب ہوگا اور اگر خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كريگى تو خاوند اس كے ليے آگ ميں جانے كا سبب ہوگا.
جب خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت سے معارض ہو تو اس صورت ميں خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، امام احمد رحمہ اللہ نے ايسى عورت جس كى والدہ بيمار تھى كے متعلق كہا:
اس پر ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اسے اجازت ديتا ہے تو پھر نہيں "
ديكھيں: منتہى الارادات ( 3/ 47 ).
اور الانصاف ميں مذكور ہے كہ:
" خاوند سے عليحدہ ہونے ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت لازم نہيں، اور نہ ہى ملاقات وغيرہ، بلكہ خاوند كى اطاعت زيادہ حق ركھتى ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 362 ).
اس سلسلہ ميں مستدرك حاكم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى مروى ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:
عورت كے ليے لوگوں ميں حق كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى والدہ "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ( 1212 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے اور امام منذرى رحمہ اللہ نے بھى.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب