ميں نے ايك پملفٹ پڑھا ہے جس ميں لكھا ہوا تھا كہ مقتدى اور امام ركوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ كہيں، اور پھر مقتدى اللہم ربنا و لك الحمد كہيں، يہ ايسى چيز جو ہمارى پرورش كے خلاف ہے كہ صرف امام ہى سمع اللہ لمن حمدہ كہے، اور مقتدى ركوع سے سر اٹھا كر اللہم ربنا و لك الحمد كہے، اس سلسلے ميں ہميں فتوى ديں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
كيا ركوع سے اٹھتے وقت مقتدى ( سمع اللہ لمن حمدہ ) كہےگا ؟
سوال: 43574
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ركوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ كہنا، اور سيدھے كھڑے ہو كر ربنا لك الحمد كہنا جمہور اہل علم كے ہاں مستحب سنت ہے، ليكن حنابلہ اسے واجب قرار ديتے ہيں، اور صحيح بھى يہى ہے كہ يہ واجب ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كى ( يعنى اس كے واجب ہونے ) دليل درج ذيل ہے:
اول:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر مواظبت اور ہميشگى كى ہے اور كبھى اور كسى بھى حالت ميں ( سمع اللہ لمن حمدہ ) كہنا ترك نہيں كيا.
دوم:
يہ ركوع سے اٹھ كر كھڑا ہونے كى علامت اور شعار ہے.
سوم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
” جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 433 ).
سوال نمبر (65847 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا و لك الحمد نماز كے واجبات ميں سے ہے.
دوم:
فقھاء كرام كا اس پر اتفاق ہے كہ: انفرادى طور پر نماز ادا كرنے والا شخص ركوع سے سر اٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ اور سيدھا كھڑا ہو كر ربنا و ولك الحمد كہے گا.
امام طحاوى رحمہ اللہ تعالى نے يہ اتفاق شرح معانى الآثار ( 1 / 240 ) اور ابن عبد البر نے الاستذكار ( 2 / 178 ) ميں نقل كيا ہے.
اگرچہ مغنى ميں اس مسئلہ كے متعلق اختلاف بيان كيا گيا ہے، ليكن اختلاف يہ ہے كہ امام اور مقتدى دونوں كے ليے كيا مشروع ہے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 1 / 548 ).
امام كے متعلق يہ ہے كہ:
احناف اور مالكى كہتے ہيں كہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ كہے، اور اس كے ليے ربنا ولك الحمد كہنا مسنون نہيں.
ليكن شافعيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ امام سمع اللہ لمن حمدہ بھى كہے اور ربنا و لك الحمد بھى.
راجح دوسرا قول ہے؛ اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب سمع اللہ لحمن حمدہ كہتے تو ربنا و لك الحمد كہتے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 795 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 392 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ اس اور دوسرى احاديث سے امام كا سمع اللہ لمن حمدہ كہنے كا استحباب نكلتا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 367 ).
اور مقتدى كے متعلق احنفاف، مالكى، حنابلہ جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ مقتدى صرف ربنا ولك الحمد ہى كہے، اور وہ سمع اللہ لمن حمدہ نہ كہے.
ليكن شافعيہ اور ظاہريہ نے اس كى مخالفت كرتے ہوئے كہا ہے كہ مقتدى كے ليے سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا و لك الحمد كہنا مستحب ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صفۃ الصلاۃ ( 135 ) ميں اسے ہى اختيار كيا ہے، مزيد تفصيل كے ليے آپ امام سيوطى كا رسالہ ” الحاوى للفتاوى” ( 1 / 35 ) پڑھيں.
جمہور كا قول راجح ہے، واللہ اعلم.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” لقاء الباب المفتوح ” ميں كہتے ہيں:
” جب امام سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو مقتدى سمع اللہ لمن حمدہ نہ كہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” امام تو اقتدا كرنے كے ليے بنايا گيا ہے، چنانچہ جب وہ تكبير كہے تو تم بھى تكبير كہو، اور جب وہ ركوع كرے تو تم بھى ركوع كرو، اور جب وہ سجدہ كرے تو تم بھى سجدہ كرو، اورجب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو ”
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ” جب وہ تكبير كہے تو تم تكبير كہو”
اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو ”
يہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير اور سمع اللہ ميں فرق كيا ہے، چنانچہ ہم اسى طرح كہيں گے جس طرح وہ كہےگا، ليكن سمع اللہ لمن حمدہ ميں امام كى طرح نہيں كہينگے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم ربنا و لك الحمد كہو”
يہ بالكل اس طرح ہے كہ: جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم سمع اللہ لمن حمدہ مت كہو، ليكن ربنا و لك الحمد كہو، اس كى دليل حديث كا سياق و سباق ہے جس ميں ہے:
” جب وہ تكبير كہے تو تم تكبير كہو”
اور جن اہل علم كا قول يہ ہے كہ وہ سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا و لك الحمد دونوں كہے تو اس كا قول ضعيف اور كمزور ہے، كسى شخص كا بھى مطلقا قول قبول نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى كسى كا قول مطلقا رد كيا جا سكتا ہے حتى كہ اسے كتاب و سنت پر پيش كر كے پركھا جائيگا، اگر ہم اسے كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں تو وہى كچھ پاتے ہيں جو آپ سن چكے ہيں” انتہى
ديكھيں: لقاء الباب الفتوح ( 1 / 120 ).
مزيد ديكھيں: المغنى ( 1 / 548 ) الام ( 1 / 136 ) المحلى ( 1 / 35 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 27 / 93 – 94 ).
اس سے يہ پتہ چلا كہ اس مسئلہ ميں اہل علم كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے اس ليے كسى پملفٹ ميں بعض اہل علم كا يہ قول پايا جانا كوئى تعجب والى بات نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات