اگر ميت فقير ہو تو اس كے غسل اور كفن دفن كے اخراجات كس كے ذمہ ہونگے ؟
كفن دفن اور غسل كے اخراجات
سوال: 44039
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر ميت كا مال ہو تو اس كى تجھيز و تكفين اس كے مال سے كى جائيگى، اور اس كے اخراجات قرضے اور اس كى جانب سے كردہ وصيت كى تنفيذ پر مقدم ہونگے، اور وراثت كى تقسيم سے بھى قبل كفن دفن كے اخراجات نكال كر اس كى دليل ميدان عرفات ميں فوت ہونے والے شخص كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" اور اسے اس كے كپڑوں ميں ہى دفن كر دو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1851 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1206 ).
زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس حديث سے كئى ايك احكام نكلتے ہيں:
" كفن دفن ميراث، اور قرض پر مقدم ہونگے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اسى كے كپڑوں ميں دفن كرنے كا حكم ديا، اور اس كے وارث كے متعلق دريافت نہيں كيا، اور نہ ہى اس پر قرض كے متعلق پوچھا اگرچہ سائل كى حالت اس سے مختلف ہے.
اور جس طرح كہ اس كى زندگى ميں اس كا لباس اس كے قرض كى ادائيگى پر مقدم ہے، تو اسى طرح اس كى موت كے بعد بھى مقدم ہوگا، جمہور كى كلام يہى ہے، اور اس ميں شاذ قسم كا اختلاف پايا جاتا ہے جس كى طرف متوجہ نہيں ہوا جا سكتا " انتہى.
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 240 ).
اور المجموع للنووى ( 5 / 147 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 3 / 457 ) بھى ديكھيں.
اور " بدائع الصنائع " ميں الكاسانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور اسے اس كے سارے مال سے كفن پہنايا جائيگا، اس كے قرض كى ادائيگى اور وصيت كى تنفيذ اور وراثت كى تقسيم سے بھى قبل، كيونكہ يہ ميت كى اصلى ضروريات ميں سے ہے؛ تو يہ اس كى زندگى ميں اس كے نفقہ كى طرح ہوا " انتہى.
ديكھيں: بدائع الصنائع للكاسانى ( 2 / 330 ).
دوم:
اور اگر ميت كا كوئى مال نہ ہو تو جس پر اس كا نان و نفقہ لازم ہے اس كى تجھيز و تكفين كے اخراجات بھى اسى كے ذمہ ہونگے( مثلا اس كے والدين، اس كا بيٹا، اور خاوند ) ليكن اگر ايسا كوئى شخص نہ ہو تو بيت المال سے اخراجات ادا كيے جائينگے، اور اگر بيت المال بھى نہ ہو تو پھر عام مسلمانوں كے ذمہ ہيں.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 148 – 150 ) بدائع الصنائع ( 2 / 330 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عام مسلمانوں سے بيت المال كو اس ليے مقدم كيا گيا ہے كہ اس ميں ميت پر كوئى احسان نہيں، بخلاف اس كے كہ اگر مسلمانوں كى طرف سے ہوں، تو جو اسے دےگا اس كے دل ميں ميت پر احسان ہوگا " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 219 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" ليكن اگر فرض كريں كہ اگر كوئى ادارہ اس كا ذمہ دار ہو اور اس كے اخراجات اس كےذمہ ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ ہم اس كى طرف سے اس كى تجھيز و تكفين كريں، ليكن اگر ميت نے ايسا نہ كرنے كى وصيت كر ركھى ہو كہ: ميرى تجھيز و تكفين ميرے مال سے كى جائے، تو پھر اس كى تكفين عام كفن سے نہيں كى جائيگى، چاہے كوئى حكومتى ادارہ كى جانب سے ہو يا كسى پرائيويٹ ادارہ كى جانب سے " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 217 ).
سوم:
اور جب اگر خاوند ہو تو بيوى كى زندگى ميں نان و نفقہ كى طرح اس كى تكفين كے اخراجات بھى خاوند كے ذمہ واجب ہونگے.
ابو حنيفہ، شافعي، اور مالك رحمہم اللہ كا يہى قول ہے، اور امام احمد كہتے ہيں: بيوى كے مال سے اخراجات ادا كرنے واجب ہيں.
ديكھيں: المجموع للنوى ( 5 / 148 – 150 ) حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 101 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ جمہور كے قول پر تعليقا كہتے ہيں:
" اگر خاوند غنى ہو تو يہ قول زيادہ راجح ہے "
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 219 ).
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا بيوى كے كفن كے اخراجات خاوند كے ذمہ ہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" صحيح يہى ہے كہ بيوى كى تجھيز و تكفين كے اخراجات خاوند كے ذمہ واجب ہيں، چاہے بيوى مالدار ہو يا نہ ہو، اور يہ اس كے نفقہ ميں اور اس كے ساتھ حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے، اور لوگ اسے برا شمار كرتے ہيں كہ جب غنى اور مالدار كى بيوى فوت ہو جائے تو اس پر اس كى تكفين كے اخراجات واجب نہيں " انتہى.
ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 542 ).
ليكن بيوى كے ذمہ خاوند كى تجھيز و تكفين كے اخراجات لازم نہيں كيونكہ خاوند كى زندگى ميں خاوند كا نان و نفقہ بيوى كے ذمہ نہيں ہے.
كاسانى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" اور اس پر اجماع ہے كہ بيوى كے ذمہ خاوند كى تجھيز و تكفين كے اخراجات لازم نہيں جس طرح خاوند كے زندہ ہونے كے وقت خاوند كا لباس بيوى كے ذمہ نہيں " انتہى.
ديكھيں بدائع الصنائع ( 2 / 330 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب