يہودى اور عيسائى عورت سے شادى كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا اس دور ميں ہم عيسائى اور يہودى كو اہل كتاب شمار كريں يا مشرك ؟
كيا اس دور كے يہودى اور عيسائى مشرك ہيں اور ان سے شادى كرنا جائز ہے ؟
سوال: 44695
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جمہور اہل علم كے قول كے مطابق عيسائى اور يہودى عورت سے شادى كرنا جائز ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اہل علم ميں كوئى بھى اختلاف نہيں كہ اہل كتاب كى آزاد عورتيں حلال ہيں، عمر عثمان طلحہ حذيفہ اور سلمان اور جابر روغيرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے.
ديكھيں: المغنى ( 7 / 99 ).
اور ابن منذر رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” پہلے علماء ميں سے كسى سے بھى صحيح منقول نہيں كہ انہوں نے اسے حرام كيا ہو، خلال نے اپنى سند كے ساتھ روايت كيا ہے كہ حذيفہ اور طلحہ رضى اللہ تعالى عنہما اور جارود بن معلى اور اذنيۃ العبدى رحمہم اللہ نے اہل كتاب كى عورتوں سے شادى كى تھى، اور سب اہل علم كا قول بھى يہى ہے ” ا ھـ
اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آج كے دن ميں نے تمہارے ليے پاكيزہ اشياء حلال كر دى ہيں، اور اہل كتاب كا كھانا تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور عفت و عصمت والى مومن عورتيں اور تم سے پہلے جنہيں كتاب دى گئى تھى ان كى عفت و عصمت ركھنے والى آزاد عورتيں جب تم انہيں ان كے مہر ادا كر دو، اور تم عفت و عصمت اختيار كرنے والے ہو نہ كہ فحاشى كرنے والے، اور نہ ہى خفيہ دوستياں لگانے والے، اور جو كوئى ايمان كے ساتھ كفر كريگا تو اس كے اعمال تباہ ہو جائينگے اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوگا المآئدۃ ( 5 ).
اس آيت ميں محصنۃ سے مراد آزاد اور عفت عصمت ركھنے والى عورتيں ہيں، ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير كرتے ہوئے كہتے ہيں:
يہاں جمہور كا قول يہى ہے، اور يہى اشبہ ہے تا كہ اس ميں يہ مجتمع نہ ہو جائے كہ وہ ذمى عورت ہو اور اس كے ساتھ عفت و عصمت كى مالك نہ ہو تو اس طرح اس كى حالت بالكل ہى خراب ہو جائيگى، اور اس كے خاوند كو بالكل ايسے حاصل ہو جائے جيسا كہ مثال ميں كہا گيا ہے:
” ردى چيز اور وہ بھى پورى نہيں ” يعنى دو طرفہ ظلم، آيت سے ظاہر يہى ہے كہ محصنات سے مراد زنا و فحاشى سے عفيف عورتيں ہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے دوسرى آيت ميں اس طرح فرمايا ہے:
عفيف و پاكدامن ہوں نہ كہ زنا كرنے والياں اور خفيہ دوستياں لگانے والياں النساء ( 25 ).
نص قرآن سے عيسائى اور يہودى كفار و مشرك ہيں، ليكن ان كى عورتوں سے شادى كو مباح كرنا مخصوص ہے اللہ نے صرف ان كى عورتوں كو ہى مباح كيا ہے كسى دوسرے كافر اور مشرك كى عورت كو نہيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم مشرك عورتوں سے اس وقت تك نكاح مت كرو جب تك وہ مومن نہيں ہو جاتيں، ليكن مومنہ لونڈى مشرك عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمہيں اچھى ہى لگتى ہو البقرۃ ( 221 ).
دونوں آيتوں ميں جمع كى وجوہ ميں سب سے زيادہ ظاہر، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں شرك سے متصف كرتے ہوئے فرمايا ہے:
انہوں نے اپنے علماء اور درويشوں كو اللہ كے علاوہ رب بنا ليا تھا، اوہر مسيح بن مريم كو بھى حالانكہ انہيں تو يہى حكم ديا گيا تھا كہ وہ ايك اللہ ہى كى عبادت كريں، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، وہ پاك ہے اس چيز سے جو وہ شرك كر رہے ہيں التوبۃ ( 31 ).
چنانچہ وہ كافر و مشرك ہيں، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كى عفت و عصمت ركھنے والى عورتوں كو مسلمانوں كے ليے مباح كيا ہے كہ وہ ان سے شادى كر سكتے ہيں، سورۃ البقرۃ كى آيت ميں اس كى تخصيص پائى جاتى ہے.
ليكن يہ معلوم ہونا چاہيے كہ بہتر اور اولى يہى ہے كہ اہل كتاب كى عورتوں سے نكاح نہيں كرنا چاہيے، خاص كر اس دور ميں تو اجتناب كرنا ضرورى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب يہ ثابت ہو چكا تو بہتر يہى ہے كہ اہل كتاب كى عورت سے شادى نہ كى جائے؛ كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اہل كتاب كى عورتوں سے شادى كرنے والوں كو فرمايا تھا: انہيں طلاق دے دو، ايك شخص نے كہا: كيا آپ گواہى ديتے ہيں كہ يہ حرام ہے ؟
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا: يہ آگ كا انگارہ ہے.
اس شخص نے كہا: مجھے معلوم ہے كہ يہ انگارہ ہے، ليكن ميرے ليے حلال تو ہے، جب وہ وہاں سے چلا گيا اور كچھ مدت بعد اسے طلاق دے دى، تو كسى نے اس سے كہا:
جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے تمہيں طلاق دينے كا كہا تو تم نے طلاق كيوں نہ دى ؟
اس نے جواب ديا: ميں نہيں چاہتا تھا كہ لوگ مجھے ديكھيں كہ ميں نے ايك ايسا عمل كيا جو مجھے نہيں كرنا چاہيے تھا.
اور اس ليے بھى كہ ہو سكتا ہے اس كا دل اس عورت كى طرف مائل ہو چكا ہو اور اس عورت نے اسے فتنہ ميں ڈال ديا ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس سے اس كى اولاد ہو لہذا وہ اس عورت كى طرف مائل ہو ” اھـ
ديكھيں: المغنى ( 7 / 99 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب اہل كتاب كى عورت عفت و عصمت ميں معروف ہو اور فحش كاموں سے دور رہتى ہو تو اس سے نكاح جائز ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس سے نكاح كرنا مباح كيا ہے اور ہمارے ليے اہل كتاب كى عورتيں اور ان كا كھانا حلال كيا ہے.
ليكن اس دور ميں ان سے شادى كرنا بہت سارى برائيوں اور شر كا خدشہ پايا جاتا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ اپنے خاوند كو اپنے دين كى دعوت ديں اور اس كے باعث اس كى اولاد بھى عيسائى بن جائے، اس ليے يہ بہت خطرناك ہے.
اور مومن كے ليے احتياط اسى ميں ہے كہ وہ كتابى عورت سے شادى نہ كرے، اور اس ليے بھى كہ اس سے غالبا فحش كام ميں پڑنے سے امن ميں نہيں رہا جا سكتا، اور اس طرح كسى دوسرے كى اولاد اس كے گھر پيدا ہوگى…
ليكن اگر اسے كتابى عورت سے شادى كرنے كى ضرورت ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں تا كہ وہ اپنى عفت و عصمت محفوظ ركھ سكے، اور اس سے شادى كر كے اپنى نظروں كى بھى حفاظت كرے، اور اسے دين اسلام كى دعوت دينے كى كوشش كرے، اور كتابى عورت كے شر و فتنہ سے محفوظ رہنے كى كوشش كرے كہ كہيں وہ اسے يا اس كى اولاد كو كفر و شرك كى دلدل ميں نہ دھكيل دے ” اھـ
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 172 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب