0 / 0

كيا نفل صدقہ بدعتى لوگوں كو دیا جاسکتا ہے؟

سوال: 44738

يہ تو معلوم ہى ہے كہ عراق كے اكثر رہائشى شيعہ ہيں، تو كيا ان كے ليے فنڈ اكٹھا كرنے والى تنظيموں کو شیعہ كے ليے فنڈ دينا جائز ہے، ہو سكتا ہے وہ اس مال كے ذريعہ اہل سنت كے خلاف قوت و طاقت حاصل كريں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

يہ حكم لگانا كہ عراق كى اكثريت آبادى شيعہ پر مشتمل ہے، صحيح نہيں کیونکہ اس ميں باريك بينى سے كام نہيں ليا گيا، اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو اعداد و شمار ہمارے سامنے ہيں ان میں سے اکثر بہت قدیم ہيں، جو كہ پورى باريكى سے حاصل نہيں كيے گئے۔

بلكہ نئے اور جديد اعداد و شمار تو يہ اس كے برعكس ہيں، جس سے اس كا ثبوت ملتا ہے كہ معاملہ اسکے برعکس ہے،اور ان اعداد و شمار میں تحصیل کی سطح پر مکمل جانچ پڑتا ل کی گئی ہے۔

بہر حال اگر رافضى كو دی جانے والی رقم فرض زکاۃ میں سے ہے تواس كا سوال نمبر ( 1148 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، ليكن اگر وہ رقم نفلى صدقہ و خيرات ہے تو اہل علم نے صراحت سے بيان كيا ہے كہ نفلى صدقہ كافر كو دينا جائز ہے۔

كتاب الام ميں امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے:

“نفلى صدقہ كافر پر كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن فرضى ميں اس كا كوئى حق نہيں ہے”

ديكھيں: كتاب الام ( 2 / 65 )

اور المغنى ميں ہے:

” تمام صاحبِ حیثیت افراد، صدقہ كرنے والے كے قرابت و رشتہ دار، اور كافر وغيرہ جن پر فرض صدقہ خرچ كرنا حرام ہے، انہيں نفلى صدقہ و خيرات دينا جائز ہے، اور انہيں لينے كا حق حاصل ہے”اسکی دلیل اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً

ترجمہ: اور وہ اللہ تعالى كى محبت ميں مسكين، يتيم، اور قيدى كو كھانا كھلاتے ہيں ۔

جبکہ اس وقت كافر كے علاوہ كوئى اور قيدى ہى نہيں تھا۔

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 2 / 277 )

ليكن اگر وہ صدقہ كا مال كسى معصيت و نافرمانى يا مسلمان كو اذيت دينے ميں استعمال كرتا ہے تو پھر كسى مسلمان شخص كو بھى دينا جائز نہيں چہ جائيكہ وہ كسى كافر اور بدعتى شخص كو ديا جائے۔

جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے اس كى بنا پر اگر تو يہ يقين ہو كہ يہ مال ان لوگوں تك پہنچے گا جو مسلمانوں كو اذيت دينے كے ليے طاقت اور قوت حاصل كرينگے تو پھر انہيں دينا جائز نہيں ہے، صدقہ و خيرات كے اہل لوگوں تك يہ مال پہنچانے كے ليے آپ كوئى اورطريقہ تلاش کر سکتے ہیں، اور بہتر اور اولى تو يہى ہے كہ مسلمان شخص اپنى زكاۃ كا مال اطاعت و فرمانبردار اور متقى قسم كے لوگوں كو دے۔

شيخ الاسلام ابن تيمیہ رحمہ اللہ ” الاختيارات “صفحہ (103) ميں كہتے ہيں:

“اور ايسے شخص كو زكاۃ كا مال نہيں دينا چاہيے جو اس كے ساتھ اطاعت و فرمانبردارى ميں معاونت حاصل نہ کرے، كيونكہ اللہ تعالى نے زکاۃ کی فرضیت ضرورت مند مؤمنوں کیلئے اطاعت الہی میں مدد کے طور پر کی ہے، مثلا: فقراء و تاوان بھرنے والے، اور مومنوں كى مدد کرنیوالا۔

لہذا جو محتاج اور ضرورتمند شخص نماز ادا نہيں كرتا اسے ترکِ نماز پر توبہ کرنے تک کچھ نہیں دیا جائے گا، یہاں تک وہ اوقات پر نماز ادا كرنے كى پابندى کرنے لگ جائے۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android