كيا بالوں كو سرخ يا زرد رنگ لگانا جائز ہے، اور كونسے رنگ لگانے ممنوع ہيں ؟
كيا جن نوجوانوں كے بال ابھى سفيد نہيں ہوئے وہ صرف بطور زيبائش ايسا كر سكتے ہيں، اور اگر كوئى نوجوان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا كرتے ہوئے اپنے بال رنگے چاہے اس كے بال سفيد نہ بھى ہوئے ہوں تو كيا اسے اجروثواب حاصل ہو گا ؟
بالوں كو سرخ اور زرد خضاب لگانے كا حكم
سوال: 45191
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بالوں كو سياہ رنگ كے علاوہ باقى سب رنگ لگانا جائز ہے، اس ميں كسى بوڑھے اور نوجوان كا كوئى فرق نہيں، اور بال سفيد ہونے سے قبل ہى بالوں كو رنگنے ميں كوئى حرج نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال مذكور ہے:
ميں نے كچھ لوگوں كو ديكھا ہے كہ وہ بالوں كا رنگ تبديل كرنے كے ليے كريم وغيرہ استعمال كرتے ہيں، يا تو بال سياہ يا سرخ ہوتے ہيں، اور يہ بھى ديكھا ہے كہ وہ ايك اور چيز استعمال كرتے ہيں جن سےگھنگھريالے بال نرم و ملائم ہو جاتے ہيں، تو كيا ايسا كرنا جائز ہے، اور كيا نوجوان بھى بوڑھے كے حكم ميں آتا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
والصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ و بعد:
سياہ رنگ كے علاوہ كسى اور رنگ كے ساتھ بالوں كو رنگنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح گھنگھريالے بالوں كو نرم اور ملائم كرنے كے ليے كريم وغيرہ استعمال كرنى جائز ہے.
اور اس ميں نوجوان اور بوڑھے شخص كا حكم ايك ہى ہے، ليكن ايك شرط ہے كہ اگر رنگنے اور بال نرم كرنے والا مادہ استعمال كرنے ميں كوئى نقصان و ضرر نہ ہو، اور وہ چيز طاہر و پاك اور مباح بھى ہو.
ليكن بالوں كو خالص سياہ كرنا جائز نہيں ہے، نہ تو مردوں كے ليے اور نہ ہى عورتوں كے ليے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس سفيدى كو تبديل كرو اور سياہى سے اجتناب كرو "
اللہ تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 168 ).
فتوى ميں مذكورہ حديث صحيح مسلم كى روايت كردہ ہے ديكھيں صحيح مسلم حديث نمبر ( 2102 ).
بالوں كو سياہ كرنے كى ممانعت كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث بھى ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آخرى زمانے ميں ايك قوم سياہ خضاب استعمال كرينگے جس طرح كہ كبوتر كا سينہ ( پوٹا ) ہوتا ہے وہ جنت كى خوشبو تك بھى نہيں پائينگے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
سرخ اور زرد رنگ كا خضاب لگانے كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے ايك شخص گزرا جس نے مہندى سے اپنے بال رنگے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ كتنا ہى اچھا اور بہتر ہے.
وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك اور شخص گزرا جس نے مہندى اور وسمہ ملا كر بال رنگے ہوئے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ اس سے بہتر ہے، اور پھر ايك اور شخص گزرا جس نے اپنے بالوں كو زرد رنگ كا خضاب لگا ركھا تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يہ ان سب سے اچھا اور بہتر ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4211 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے مشكاۃ المصابيح ميں اس حديث كو جيد كہا ہے.
اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ سفيدى كو كسى اور رنگ سے بدلا جائے، اس ميں مطلقا رنگنے كا ذكر نہيں، چاہے بغير سفيدى آئے ہى بالوں كو رنگ ليا جائے.
دوم:
يہاں زيبائش و زينت وغيرہ ميں ايك عمومى قاعدہ اور اصول كى طرف متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ اس ميں وہ چيز ممنوع ہوگى جو حرام كے مشابہ ہو، مثلا كفار يا فاسق و فاجر لوگوں كے ساتھ مشابہت اختيار كرنا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے يہ ضرورى ہے كہ جس خضاب يا رنگ كے جواز كے متعلق يہاں سوال كيا جارہا ہے كہيں وہ كفار يا فاسق قسم كے لوگوں كى تقليد كرتے ہوئے تو نہيں كيا جاتا، يا وہ كام كسى اداكار اور موسيقار يا پھر كسى كھلاڑى وغيرہ كا طريقہ تو نہيں جنہيں آج كل كے نوجوان اپنا آئيڈيل سمجھتے ہيں .؟
اسى طرح وہ خضاب يا بالوں كو رنگنا بھى منع ہے جو عورتوں سے مشابہت ركھتا ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مشابہت سے منع كيا ہے اور ايسا كرنے والے پر لعنت كى ہے.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 5435 ).
سوم:
رہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنے بالوں كو رنگنے اور خضاب لگانے كا تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے بالوں كو رنگا تھا يا نہيں ؟
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خضاب كے متعلق صحابہ كرام كا اختلاف ہے، انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے بالوں كو خضاب نہيں لگايا، اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خضاب لگايا.
اور حماد بن سلمہ نے حميد سے بيان كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال رنگے ہوئے ديكھے.
حماد كہتے ہيں: اور مجھے عبد اللہ بن محمد بن عقيل نے بتايا كہ ميں نے انس رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال ديكھے وہ رنگے ہوئے تھے "
اور ايك گروہ كا كہنا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خوشبو بہت زيادہ استعمال كرتے تھے جس كى بنا پر آپ كے بال سرخ ہوگئے اس ليے ايسا گمان ہوتا تھا كہ انہيں خضاب لگا كر رنگا گيا ہو، حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خضاب نہيں لگايا.
اور ابو رمثہ كہتے ہيں ميں اپنے ايك بيٹے كے ساتھ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا: كيا يہ تيرا بيٹا ہے ؟
ميں نے عرض كيا جى ہاں ميں اس كى گواہى ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اس پر زيادتى نہ كرو، اور نہ يہ تم پر زيادتى كرے.
راوي كہتے ہيں: ميں نے سرخ بال ديكھے "
ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس باب ميں سب سے بہتر يہى روايت كيا گيا ہے، اور ميں اس كى تفسير اور تاويل كرتا ہوں كيونكہ صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال سفيد نہيں ہوئے تھے.
حماد بن سلمہ سماك بن حرب سے بيان كرتے ہيں كہ: جابر بن سمرہ سے دريافت كيا گيا كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سر ميں سفيد بال تھے؟
تو ان كا جواب تھا: آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے سر ميں سفيد بال نہيں تھے، صرف مانگ كے درميان چند ايك بال سفيد تھے جو خوشبو اور تيل كى بنا پر تھے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 169 ).
چہارم:
رہا يہ مسئلہ كہ سفيد بال نہ ہوتے ہوئے بھى بالوں كو رنگنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى واقتدا كى نيت كرنا، تو اس كے متعلق آپ يہ معلوم كر چكے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خضاب لگانے ميں قوى اختلاف موجود ہے.
پھر سنت ميں بالوں كے رنگنے كا مقصد يہ نہيں كہ انہيں بغير سفيدى كے ہى خضاب لگا ليا جائے، بلكہ سنت ميں جو حكم وارد ہے اس سے مراد تو يہ ہے كہ سفيدى كو تبديل كيا جائے، اور اس ميں يہوديوں اور عيسائيوں كى مخالف كى جائے، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سفيدى كو تبديل كرو اور يہوديوں كى مشابہت نہ كرو "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4986 ) جامع ترمذى حديث نمبر (1674)
اور مسلم شريف ميں حديث ہے كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے والد كے سفيد بال ديكھے تو فرمانے لگے:
" اسے كسى چيز كے ساتھ تبديل كر دو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3924 )
اور بخارى شريف كى روايت ميں ہے:
" بلا شبہ يہودى خضاب نہيں لگاتے لہذا تم ان كى مخالفت كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5448 ).
اس ليے اگر بال سفيد نہ ہوں تو پھر بالوں كو رنگنا اور خضاب لگانا سنت نہيں، اور نہ ہى اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا و پيروى شمار كيا جائيگا، كيونكہ يہ بغير كى كسى وجہ سے كيا گيا ہے اور اس كا كوئى متقاضى ہى نہيں، اور اس ليے بھى سفيد بالوں كو رنگ كر جو شرعى مصلحت حاصل ہوتى ہے وہ سفيد بالوں كے بغير حاصل نہيں ہوتى.
اور اگر اس ميں كفار يا فاسق لوگوں سے مشابہت اور پھر كوئى صحت كو نقصان و ضرر نہ ہو تو پھر يہ زيادہ سے زيادہ مباح ہوگا، ليكن اگر اس ميں كفار كى مشابہت يا ضرر ہو تو يہ حرام ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب