ميں نے سنا ہے كہ بغير كسى چادر يا كمبل كے خاوند اور بيوى ہم بسترى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ وہاں فرشتے ہوتے ہيں، اور وہ ننگے خاوند اور بيوى سے شرم محسوس كرتے ہيں، اس ليے دونوں كو پر واجب ہے كہ وہ ہم بسترى كرتے وقت كمبل وغيرہ ڈھانپ كر ركھيں، اور جسم ننگا نہ كريں، كيا يہ صحيح ہے ؟
جماع كے وقت خاوند اور بيوى كا بے لباس ہونا
سوال: 45514
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى بھى شرعى حكم كى تحريم كو كتاب و سنت سے ثابت شدہ دليل كے بغير شريعت كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں، احناف، شافعيہ، مالكيہ اور حنابلہ ميں سے جمہور علماء كرام كے ہاں خاوند اور بيوى كا ہم بسترى كے وقت بےلباس اور ننگے ہونا جائز ہے.
اور حنابلہ جماع كے وقت بےلباس ہونے اور كپڑا نہ ڈھانپنے كو مكروہ كہتے ہيں، ا نكى دليل كئى ايك احاديث ہيں، ليكن ان ميں كوئى حديث بھى صحيح نہيں، ان ميں بعض احاديث درج ذيل ہيں:
1 – ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص اپنى بيوى كے ساتھ ہم بسترى كرے اور وہ اپنے آپ كو نہ ڈھانپے تو فرشتے اس سے شرم و حياء كرتے ہوئے نكل جاتے ہيں، اور جب ا نكو اس سے اولاد حاصل ہو تو اس ميں شيطان كا حصہ ہوتا ہے "
اسے طبرانى نے المعجم الاوسط ( 1 / 63 ) ميں روايت كيا ہے، اور امام بزار نے اسے ضعيف كہا ہے، جيسا كہ نصب الرايۃ ( 4 / 247 ) ميں درج ہے.
2 – عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص اپنى بيوى كے پاس جائے تو اسے ستر ڈھانپنا چاہيے، اور وہ جانوروں كى طرح بےلباس نہ ہو "
اسے طبرانى نے المعجم الكبير ( 10 / 196 ) اور البيھقى نے ( 7 / 193 ) ميں نقل كيا اور اسے ضعيف قرار ديا ہے، اس كى سند ميں مندل بن على ہے جو كہ ضعيف راوى ہے.
اور اسے ابن ماجہ حديث نمبر ( 1921 ) ميں عتبہ بن عبد اللہ السلمى كى حديث سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اراوء الغليل حديث نمبر ( 2009 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
3 – ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى اپنى بيوى كے پاس جائے تو اپنے اور اپنى بيوى كو ڈھانپ كر ركھے، اور گدھے كى طرح ننگے نہ ہوں "
اسے طبرانى ( 8 / 164 ) نے روايت كيا ہے، اس كى سند ميں عفير بن معدان ہے جو كہ ضعيف ہے، جيسا كہ مجمع الزوائد ( 4 / 293 ) ميں ہے.
جب ان احاديث كا ضعيف ہونا ثابت ہو گيا تو پھر جماع كرتے وقت ننگے نہ ہونا، اور اس سے منع كرنے پر ان احاديث سے استدلال كرنا صحيح نہيں، اور اصل يہى ہے كہ: خاوند اور بيوى كا نظر اور ہاتھ لگا كر چھونا دونوں طرح فائدہ اٹھانا حلال ہے.
جمہور علماء كرام نے جواز كا استدلال بہز بن حكيم كى حديث سے كيا ہے، وہ اپنے باپ اور دادا سے بيان كرتے ہيں كہ:
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم اپنى شرمگاہ ميں سے كيا چھپائيں، اور كيا ننگى كريں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنى بيوى يا لونڈى كے علاوہ اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرو "
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: يہ بتائيں كہ اگر لوگ ايك دوسرے ميں سے ہوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تم ايسا كر سكو كہ شرمگاہ كو كوئى نہ ديكھ سكے تو تم ايسا ضرور كرو "
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اور اگر ہم ميں كوئى اكيلا ہو ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ زيادہ حق ركھتا ہے كہ لوگوں سے زيادہ اللہ سے شرم و حياء كى جائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2794 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1920 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
اور انہوں نے ايك ضعيف حديث سے بھى استدلال كيا ہے.
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ننگے ہونے سے اجتناب كرو، كيونكہ تمہارے ساتھ وہ ہيں جو تم سے صرف بيت الخلاء جاتے وقت عليحدہ ہوتے ہيں، يا پھر جب بيوى سے خاوند جماع كرنے لگے، تو تم ان سے شرم كرو، اور ا نكى عزت كرو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2800 ) اس حديث كى سند ميں ليث بن ابو سليم ہے، جو اختلاط كا شكار ہو گيا، علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 64 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
اگر جماع اور ہم بسترى كى حالت ميں ننگے ہونے كى ممانعت ميں كوئى صحيح حديث نہيں ملتى تو پھر اصل حلت ہى ہے، اور اس اصل كى تائيد كا ثبوت بھى ملتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب