مجھے دو بار طلاق ہو چكى ہے: پہلى بار اس ليے طلاق ہوئى كہ ميں نے خاوند سے مطالبہ كيا تھا كہ وہ ميرے اور بچوں كے ليے مہينہ ميں ايك دن مقرر كر دے جس ميں وہ ہمارے ساتھ بيٹھے اور وہاں اپنے گھر والوں كى ياد نہ كرے.
دوسرى بار طلاق اس ليے ہوئى كہ خاوند دوسرى عورت سے محبت كرتا تھا اور ميرے ساتھ بچوں كے سامنے توہين آميز رويہ اختيار كرتا، اور اسے مجھ پر فوقيت ديتا اور ميرے اور ميرے بچوں كے احساس كا خيال تك نہ كرتا تھا، اور وہ اس سے شادى كيے بغير ميرے سامنے ٹيلى فون پر محبت كى باتيں كرتا رہتا.
اب وہ سفر پر گيا ہوا ہے اور مجھے ميرے بچوں كے ساتھ اكيلا چھوڑ گيا ہے، ميرا اس سے تعلق صرف يہى ہے كہ وہ اپنے گھر والوں كے ذريعہ كچھ خرچ بھيج ديتا ہے.
مجھے يہ بتائيں كہ اگر مجھے طلاق ہو جائے تو اللہ مجھے اللہ اس كا نعم البدل ديگا، اور مجھے اپنے فضل سے غنى كر ديگا اور ميں جو ظلم ديكھ رہى ہوں مجھے اس كے عوض ميں بہتر بدلہ دےگا يا كہ يہ اللہ كى قضاء و قدر پر عدم رضا ہو گى ؟
اور كيا مجھے يہ حق حاصل ہے كہ ميرا ايسا خاوند ہو جس كے ساتھ محبت و پيار اور سكون سے رہوں، يا كہ ميں اور ميرے بچے صرف ماہانہ اخراجات پر ذلت كى زندگى پر راضى رہيں جو ہر ماہ خاوند كے گھر والوں كے ذريعہ بھيج ديتا ہے جس سے ميرى اور بھى زيادہ تذليل ہوتى ہے ؟
اور كيا ميں صبر و شكر كرنے والى شمار ہوتى ہوں يا كہ كمزور كيونكہ ميں طلاق كے خوف كى بنا پر گيارہ برس سے اس زندگى پر راضى ہوں ؟
خاوند خرچہ نہ دے اور دور رہے تو كيا طلاق طلب كى جا سكتى ہے ؟
سوال: 45600
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد كے ليے ايك سے زائد بيوياں كرنا مباح كيا ہے، ليكن اسے ظلم و ست مكرنے سے منع كيا ہے اس ليے اگر كوئى شخص ايك سے زائد بيوياں كرنا چاہتا ہے تو وہ پہلى بيوى كو اچھے طريقہ سے ركھے يا پھر اسے اچھے طريقہ سے چھوڑ دے، اور اسے اپنے نكاح ميں اس طرح مت ركھے كہ اس كے پاس جائے ہى نہ اور اسے لٹكائے ركھے، اور اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كرے.
اور مرد كے ليے يہ بھى حلال نہيں كہ وہ اپنى اولاد كى تربيت و پرورش ميں كوتاہى سے كام لے، ايك سے زائد بيوياں كرنا اس ليے مشروع نہيں كيا گيا كہ گھروں كو تباہ كيا جائے بلكہ اس ليے مشروع كيا گيا ہے كہ گھروں كى بنايا جائے اور خاندان ميں كثرت پيدا كى جائے.
اگر شريعت كے مطابق خاوند نے دوسرى شادى كر ركھى ہو تو پہلى بيوى كو لٹكا كر ركھنا اور اس كے پاس نہ جانا اور اس كے حقوق ميں كوتاہى كرنا حرام ہے.
ليكن اگر اس نے اپنى بيوى كو كسى غير شرعى سبب مثلا كسى عورت سے حرام و ناجائز تعلقات، اور فاسد قسم كى شب بيدارى كى بنا پر چھوڑ ركھا ہو اور اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كرتا ہو تو پھر حكم كيا ہو گا؟.
دوم:
اگر بيوى اپنے خاوند كے برے اخلاق پر صبر نہيں كر سكتى تو اس كے ليے طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور يہ اللہ كى تقدير پر عدم رضا شمار نہيں ہوگى، بلكہ بعض اوقات تو كبيرہ گناہ كے مرتكب خاوند كے ساتھ رہنا حرام ہو جاتا ہے، جب اولاد كى جانب سے امن كا خدشہ جاتا رہے كہ اولاد بھى اس كے غلط كاموں سے متاثر ہو كر برے كاموں كا ارتكاب كرنے لگے گى.
اور اس ليے كہ طلاق مشروع ہے، بلكہ بعض اوقات تو طلاق طلب كرنا واجب ہو جاتى ہے، اس ليے يہ خيال كرنا كہ يہ چيز تقدير پر ايمان كے مخالف ہے اس كى كوئى ضرورت نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق بھى اور شادى بھى دونوں مشروع كى ہيں.
اور بيوى كے حقوق ميں شامل ہے كہ وہ اپنے خاوند كے ساتھ اچھے طريقہ سے زندگى بسر كرے، اور وہ ايسے خاوند كے ساتھ رہے جو اس كے سكون اور لباس كا باعث بنے، اور ان دونوں كے مابين الفت و محبت اور پيار ہو.
اسى وجہ سے شادى مشروع كى گئى ہے، اگر اس ميں سے كوئى بھى چيز مفقود ہو جو ہم بيان كر چكے ہيں تو يہ شادى كى مشروعيت كى حكمت كے خلاف ہے.
اسى ليے خاوند پر واجب ہے كہ وہ اپنے ليے كسى دين والى عورت كو بطور بيوى اختيار كرے، اور عورت كے اولياء اور ذمہ داران پر بھى ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيٹى وغيرہ كے ليے دين و اخلاق كے مالك شخص كا بطور خاوند انتخاب كريں.
كيونكہ جب مسلمان شخص كا گھر اللہ كى شريعت پر قائم ہو اور اس كى بنياد دين پر ركھى جائے تو پھر اس ميں ظلم و ستم اور زيادتى نہيں ديكھى جائيگى.
اور اگر عورت كسى شرعى سبب كى بنا پر اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہے تو اس كے ليے طلاق يا خلع طلب كرنا جائز ہے اور اگر خاوند اپنى بيوى كو ناپسند كرتا ہے اور اسے طلاق دے دے تو وہ اسے پورے حقوق ادا كريگا، يا تو وہ اسے اچھے طريقہ سے ركھے، اور يا پھر اسے اچھے طريقہ سے چھوڑ دے.
اور جب طلاق ہو جائے تو اللہ تعالى اس كے ليے نيك و صالح خاوند بھى عطا كر سكتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ جدا ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا .
سوم:
كچھ عورتيں ايسى ہوتيں ہيں جو اس اميد سے اپنے خاوند پر صبر و تحمل سے كام ليتى ہيں كہ اللہ تعالى اس كى حالت كى اصلاح فرما ديگا، يا پھر اس وجہ سے كہ وہ اپنى اولاد سے تعلق قائم ركھے، اور ان كى تربيت و پرورش اور خرچ كا ذمہ دار بنا رہے.
ليكن اگر زيادہ عرصہ گزر جائے اور خاوند كى اصلاح نہ ہو يا پھر وہ اپنى بيوى اور بچوں كى اور بھى زيادہ تذليل كرنے لگے اور ان سے برا سلوك كرنے لگے، اور بيوى كے پاس اپنے اور بچوں كے ليے اخراجات ہوں تو پھر خاوند كے نكاح ميں رہنے كى كوئى وجہ نہيں، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ اس سے چھٹكارا حاصل كر لے، يہى اس كى زندگى كے ليے بہتر ہے تا كہ وہ عزت كے ساتھ زندگى بسر كر سكے، اور اپنى اولاد كى شريعت كے مطابق اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت ميں پرورش و تربيت كر سكے.
آپ كو اپنے آپ كا محاسبہ كرنا چاہيے، اور آپ اللہ سبحانہ و تعالى كے سامنے توبہ و استغفار كريں، ہو سكتا ہے آپ سے كوئى معصيت و نافرمانى ہوئى ہو يا اللہ كے حق ميں كوئى غلطى و كوتاہى ہو گئى ہو، يا پھر خاوند كے حق ميں يا كسى اور كے حق ميں كوتاہى كر بيٹھى ہوں اور آپ كو اس كا علم بھى نہ ہو.
ہو سكتا ہے جو كچھ ہو رہا ہے وہ گناہوں كى سزا ہو جو آپ نے كيے ہيں اور آپ كو ان كا علم نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تمہيں جو مصيبت آتى ہے وہ تمہارے ہاتھوں كى كمائى كى وجہ سے ہے، اور وہ اللہ عزوجل بہت سى معاف كر ديتا ہے .
آپ اپنى حالت ميں اچھى طرح غور و فكر كريں اور اس امكان كو بھى ديكھيں كہ ہو سكتا ہے اس كے بعد آپ كو كوئى اچھا خاوند مل جائے، يا پھر آپ خاوند كے بغير ہى زندگى بسر كريں.
اس سلسلہ ميں آپ اپنے قريبى اور ميل جول ركھنے والوں سے مشورہ كريں، اور آپ اس كى بات كو تسليم كريں جو آپ كے ليے سب سے زيادہ نصيحت كرنے والا ہے.
اگر وہ سب طلاق پر ہى متفق ہوں اور آپ كى حالت وہى ہے جو آپ نے سوال ميں بيان كى ہے تو پھر آپ اللہ سے استخارہ كريں، اگر تو طلاق پر دل مطمئن ہو جائے تو طلاق حاصل كر كے اللہ سے سوال كريں كہ وہ آپ كو اپنى وسعت سے غنى كر دے، اور آپ كے حال كى اصلاح فرمائے، اور آپ كے غم و پريشانى كو دور كرے، اور اگر آپ دونوں كے ليے بہتر ہے تو پھر آپ دونوں ميں صلح كرا دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب