0 / 0
5,05826/06/2006

گھر خالى نہ كرنے والے كرايہ دار كے ساتھ كيا سلوك كيا جائے ؟

سوال: 45653

ہمارے كنبے كا سربراہ فوت ہو چكا ہے، اور اس نے وراثت ميں ہمارے ليے جائداد چھوڑى تھى، اس جائداد ميں تقريبا اٹھارہ برس سے كچھ لوگ رہائش پذير ہيں اور اس كا كرايہ چاليس مصرى جنى ہے، اس گھر ميں رہنے والوں پر اللہ تعالى كا فضل ہے اور ان ميں سے ہر ايك كے پاس اپنى جائداد ہے، جن ميں سے كسى نے اپنے بيٹے كے نام اور بعض نے اپنى بيوى كے نام يہ جائداد لگوا ركھى ہے، ہم اس وقت ان فليٹوں كے بہت زيادہ محتاج ہيں؛ ميں نے ان كرايہ داروں سے فليٹ خالى كرنے كى درخواست كى اور اپنے حالات بيان كيے ليكن انہيں نے خالى كرنے سے انكار كرديا، اور بعض كرايہ داروں نے تو فليٹ خالى كرنے كى مد ميں بہت زيادہ رقم طلب كى، ميں نے كئى ايك بار فليٹ خالى كروانے كى كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہ ہوا، اور ہمارے ہاں قانون بھى ان كى مدد كرتا ہے، اس كے بعد ميں نے ان سے كرايہ زيادہ كرنے كا مطالبہ كيا تا كہ ہم اپنى معاشى ضروريات پورى كر سكيں تو اس كا بھى كوئى فائدہ نہ ہوا اب ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

كرايہ دار اور مالك كے ساتھ اس طرح كا اشكال اور صورت كا سبب يہ ہے كہ كرايہ نامہ لكھتے وقت شرعى امور كو سامنے نہيں ركھا جاتا، اور بہت سے لوگوں كا اس شريعت كى مخالفت كرنا ہے, اور ايك چيز جس كى بہت سے لوگ مخالفت كرتے ہيں اور يہ بہت سارى مشكلات كا سبب بھى بنتى ہے وہ كرايہ نامہ لكھتے وقت كرايہ كى مدت كو محدود نہ كرنا ہے، جبكہ كرايہ كى مدت كا تعين كرنا نزاع اور جھگڑے كا خاتمہ، اور دونوں فريقوں كے حقوق كا محافظ بھى ہے.

تو اس طرح مالك كرايہ دار كو اس مدت كے دوران مكان ميں رہنے ديتا ہے، اور كرايہ دار پر لازم آتا ہے كہ وہ اس مدت كے دوران كرايہ كى ادائيگى كرتا رہے، اور اگرچہ كرايہ دار اسے استعمال ميں نہ بھى لائے تو كرائے كے اس معاہدے پر عمل كرتے ہوئے كرايہ ادا كرنا لازم ہو گا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جائداد كرايہ پر دينے كے جواز ميں اہل علم كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اہل علم ميں جن سے بھى ہم نے علم حاصل كيا وہ سب گھر اور جانور كرايہ پر دينے ميں اتفاق كرتے اور جمع ہيں.

اور اسے معين اور معلوم مدت كے ليے ہى كرايہ پر دينا جائز ہے، اور اسے ديكھنا، اور اس كى تحديد كرنا ضرورى ہے، كيونكہ اس كے بغير وہ ومعلوم ہى نہيں ہو سكتا، اور اس كا اطلاق جائز نہيں، اور نہ ہى اس كا وصف بيان كر كے كرايہ پر دينا جائز ہے، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا يہى كہنا ہے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 5 / 260 ).

صحيح يہى ہے كہ: مدت كى تعين محدود مدت ميں نہيں ہوتى، بلكہ مالك اور كرايہ دار كى رضامندى سے اس كا كئى ماہ يا دسيوں برس تك چلنا ممكن ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر كوئى مدت كے ليے چيز كرايہ پر دى جائے تو مدت معلوم ہونا ضرورى ہے مثلا ماہ اور سال، جتنا كچھ ہميں علم ہے اس كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں، كيونكہ جس پر معاہدہ كيا گيا ہے اس كا ضابطہ مدت ہى ہے، كہ يہ مدت معلوم ہونى چاہيے، تو اس طرح مدت معلونى ضرورى ہے، جس طرح ماپى اور تولى جانے والى اشياء ميں ماپ اور تول معلوم ہونا ضرورى ہے.

ديكھيں: الغنى لابن قدامہ المقدسى ( 5 / 251 ).

اور ايك جگہ پر ان كا كہنا ہے:

كرايہ كى اكثر مدت كا اندازہ نہيں لگايا جاسكتا، بلكہ كسى چيز كا اتنى مدت تك كرايہ پر دينا جائز ہے جتنى مدت وہ باقى رہے چاہے وہ مدت زياہ ہى كيوں نہ ہو، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے:

كيونكہ اللہ تعالى نے شعيب عليہ السلام كے متعلق بتاتے ہوئے فرمايا كہ انہوں نے كہتا تھا:

اس شرط پر كہ آپ آٹھ برس تك ميرے ہاں مزدورى كريں، اور اگر دس برس پورے كري تو يہ آپ كى جانب سے ہو گى

اور ہم سے پہلے لوگوں كى شريعت بھى ہمارى شريعت ہے جب تك كہ اس كے نسخ ہونے كى كوئى دليل نہ مل جائے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 5 / 253 ).

دوم:

اور رہا مسئلہ مدت ختم ہونے سے قبل مالك يا كرايہ دار كى موت كا تو اس كے بارہ ميں جمہور اہل علم كا مسلك يہ ہے كہ ان ميں سے كسى ايك كى موت سے معاہدہ فسخ نہيں ہوتا، ليكن احناف نے ان كى مخالفت كرتے ہوئے كہا ہے كہ: مالك كے ورثاء كى رضامندى ہو تو معاہدہ رہے گا وگرنہ مالك كى موت سے معاہدہ فسخ ہو جائے گا، اور ورثاء كرايہ داروں سے جائداد خالى كرنے كا مطالبہ كر سكتے ہيں.

جمہور اہل علم كا قول ہى صحيح ہے كہ مدت كے دوران فريقين كو معاہدہ كى پاسدارى كرنا لازم ہے.

صحيح بخارى كى كتاب ” الايجارۃ ” امام بخارى رحمہ اللہ تعالى باب باندھتے ہوئے كہتے ہيں:

باب ہے كہ جب زمين كرايہ پر حاصل كرے تو ان دونوں ميں سے كوئى ايك شخص فوت ہو جائے.

تو ابن سيرين رحمہ اللہ كا كہنا ہے كہ: مالك كے گھر والے ( ورثاء ) كرايہ داروں كو نكالنے مدت سے قبل نكالنے كا حق نہيں ركھتے.

اور حكم، حسن، اياس بن معاويہ رحمہم اللہ كہتے ہيں: كرايہ كى مدت پورى كى جائے گى.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خيبر كے يہوديوں كو خيبر كى زمين آدھے حصہ پر دى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور كے ابتدائى حصہ ميں اس پر عمل ہوتا رہا، اس كا كوئى ذكر نہيں كيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے بعد ابوبكر اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہما كے دور خلافت ميں اس معاہدہ كى تجديد كى گئى ہو. انتھى

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: ” باب اذا استاجر ارضا فمات احدھما” ( باب ہے: جب زمين كرايہ پر حاصل كى جائے تو ان ميں سے ايك شخص فوت ہو جائے ) يعنى: آيا كرايہ كا معاہدہ فسخ ہو جائے يا نہيں ؟

لہذا جمہور علماء كرام عدم فسخ كا مسلك ركھتے ہيں، ليكن كوفى اور ليث فسخ قرار ديتے ہيں… اور اس پر متفق ہيں كہ وقف كے نگران كى موت كے باعث كرايہ نامہ كا معاہدہ فسخ نہيں ہوگا، تو اسى طرح يہاں بھى.

قولہ: ” اور ابن سيرين رحمہ اللہ كا كہنا ہے كہ: اس كے اہل و عيال كو حق نہيں” يعنى ميت كے گھروالوں كو.

” كہ وہ اسے نكاليں” يعنى كرايہ دار كو .

يہاں سے مقصد يہ استدلال كرنا ہے كہ مالك يا كرايہ دار دونوں ميں سے كسى ايك كى موت سے كرايہ نامہ فسخ نہيں ہوگا، اور اس ميں يہ ظاہر ہے، اور انہوں نے اس كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے: ” اس كا ذكر نہيں كيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے معاہدہ كى تجديد كى ہو”

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 463 ).

سوم:

اور رہا مسئلہ يہ كہ مكان خالى كرنے سے انكار كرنے والے كرايہ داروں كے ساتھ آپ كيا سلوك كريں ؟ اس كے متعلق ہم آپ كو مندرجہ ذيل نصيحت كرتے ہيں:

1 – آپ انہيں يہ بيان كريں كہ مدت كى تعيين نہ ہونے كى بنا پر آپ اور ہمارے مابين معاہدہ غير شرعى ہے، يہ پہلے بيان ہو چكا ہے كہ علماء كرام كے ہاں بغير كسى اختلاف كے كرايہ كى مدت كى تعيين كرنا واجب ہے.

2 – آپ انہيں جائداد خالى كرنے كے ليے مناسب وقت ديں، اور اس مدت كى تعيين سابقہ غلطى كى تصحيح كى جگہ ہو گى اور نيا معاہدہ ايك مقررہ مدت تك ہو گا.

3 – آپ انہيں يہ بتا ديں كہ مكان خالى نہ كرنے كى حالت ميں وہ غاصب اور گنہگار ہونگے، اور انہيں ظالموں كا انجام اور غصب كرنے والوں كا حكم بھى بتائيں.

4 – آپ كچھ صاحب عقل و فہم لوگوں كو اس معاملہ ڈاليں جو ان سے معاملہ نپٹا سكيں، يا پھر اس كے ليے ان كے رشتہ داروں يا جان پہچان ركھنے والوں ميں سے ايسے اشخاص تلاش كريں جن كى وہ بات تسليم كرتے ہوں، اور انہيں فليٹ سے نكالنے كے ليے آپ انہيں رقم بھى دے سكتے ہيں، يہ مال ان پر تو حرام ہو گا، اور وہ حرام كھا رہے ہيں، ليكن آپ كے متعلق يہ ہے كہ جب مظلوم شخص بغير مال ادا كيے اپنا حق حاصل نہ كر سكے تو اس كے ليے ظالم كو مال دينا جائز ہے.

اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (40272 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

5 – اور اگر يہ چيز بھى فائدہ مند نہ ہو تو پھر آپ كو تين قسم كا اختيار حاصل ہے:

يا تو آپ ان كے ليے بد دعا كريں- كيونكہ مظلوم كى دعا قبول ہوتى ہے- يا پھر آپ انہيں معاف كرديں، اور يا ان كے معاملہ كو اللہ كے سپرد كرديں، تا كہ اللہ تعالى ان سے آپ كا حق لے كر دے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android