کیا تراویح کی نماز مسجد میں با جماعت ادا کرنا افضل ہے یا گھر میں ادا کرنا افضل ہے؟
مسجد میں با جماعت نماز تراویح گھر میں ادا کرنے سے افضل ہے
سوال: 45781
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز تراویح گھر میں ادا کرنے سے مسجد میں با جماعت ادا کرنا افضل ہے۔
اس کے لئے احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے دلیل ملتی ہے۔
1- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات مسجد میں [نماز تراویح ] پڑھی تو آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی [تراویح ]ادا کی پھر ، آپ نے آئندہ رات بھی نماز پڑھی تو لوگ پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ آئے، پھر جب صبح ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ([گزشتہ راتوں میں ]تم نے جو کچھ کیا میں نے دیکھ لیا تھا، اور رات کو میں تمہاری طرف اس لیے نہیں آیا کہ مجھے خدشہ ہوا کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے) یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (1129) اور مسلم : (761)نے روایت کیا ہے۔
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ترک اس لیے فرمایا کہ آپ کو امت پر تراویح فرض ہونے کا خدشہ تھا۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو گئی تو یہ خدشہ بھی ختم ہو گیا؛ کیونکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے۔
2- اسی طرح امام ترمذی: (806) نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے امام کے ساتھ [نماز تراویح کے لئے]قیام کیا یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کاقیام لکھا جائے گا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
3- بخاری : (2010) میں عبد الرحمن بن عبد القاری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: " میں رمضان کی ایک رات عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے؛ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ، تو کسی کے پیچھے متعدد افراد کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ افضل ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے اس عزم و ارادے کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام مقرر کر دیا۔ "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن التین اور دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ: یہاں عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل سے استنباط کیا ہے جب تین راتوں میں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تراویح ادا کی تھی؛ اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید راتوں میں اس لیے نہیں پڑھائی کہ آپ کو اس نماز کے فرض ہونے کا خدشہ تھا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو گئی فرض ہونے کا خدشہ ختم ہو گیا، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ایک امام کے ساتھ با جماعت تراویح کو ترجیح دی؛ نیز یہ بھی اس کی وجہ ہے کہ الگ الگ تراویح پڑھنے میں اتحاد و اتفاق نظر نہیں آتا، ویسے بھی اکٹھے نماز ادا کرنے سے کئی لوگوں میں با جماعت تراویح ادا کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کے مطابق جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔" ختم شد
فتح الباری
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/526) میں کہتے ہیں:
"نماز تراویح علمائے کرام کے اجماع کے مطابق سنت ہے۔۔۔ اور اسی طرح اکیلے یا با جماعت بھی جائز ہے۔ تاہم ان دونوں میں سے کون سی افضل ہوگی؟ اس بارے میں دو مشہور اقوال ہیں، [شافعی ]فقہائے کرام کے ہاں صحیح ترین موقف کے مطابق با جماعت افضل ہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ: اکیلے نماز تراویح ادا کرنا افضل ہے۔
ہمارے [شافعی ]فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: اختلاف اس صورت میں ہے جب کوئی شخص حافظ قرآن ہو، تو اگر اس کے اکیلے نماز ادا کرنے سے اس میں کسی قسم کی سستی پیدا نہیں ہو گی، نہ ہی اس کے مسجد نہ جانے سے مسجد میں نماز با جماعت متاثر ہو گی [تو اس کے لیے اکیلے پڑھنا جائز ہے] لیکن اگر مذکورہ امور میں سے کوئی ایک بھی رونما ہوا تو بلا خلاف تراویح با جماعت افضل ہو گی۔
نیز الشامل کے مؤلف کہتے ہیں: ابو العباس اور ابو اسحاق کے مطابق نماز تراویح اکیلے پڑھنے سے با جماعت ادا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور تمام مسلم خطوں کے اہل علم کا اجماع ہے۔" ختم شد
امام ترمذی کہتے ہیں:
"ابن مبارک ، احمد اور اسحاق نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز تراویح کو پسند کیا ہے۔"
تحفۃ الاحوذی کے مؤلف لکھتے ہیں کہ:
"کتاب قیام اللیل میں ہے کہ: احمد بن حنبل سے کہا گیا: آدمی لوگوں کے ساتھ رمضان میں با جماعت تراویح ادا کرے یا اکیلے؟ آپ کو کیا پسند ہے؟ تو انہوں نے کہا: لوگوں کے ساتھ با جماعت ادا کرے۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: مجھے تو یہ بھی پسند ہے کہ امام کے ساتھ تراویح پڑھے اور وتر بھی ادا کرے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک جو آدمی امام کے ساتھ [نماز تراویح کے لئے]قیام کرے یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا۔)
امام احمد رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ: آدمی کو چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ با جماعت تراویح ادا کرے اور اس وقت تک نہ جائے جب تک امام فارغ نہیں ہو جاتا۔
امام ابو داود کہتے ہیں: میں امام احمد کے پاس ماہ رمضان میں آیا تو آپ نے تمام راتوں میں امام کے ساتھ وتر ادا کیا، ما سوائے ایک رات کے کہ میں اس رات خود حاضر نہیں تھا۔
اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو کہا: ماہ رمضان میں نماز [تراویح ]با جماعت آپ کو زیادہ محبوب ہے یا کہ انسان اکیلے ادا کرے؟ تو انہوں نے کہا: مجھے یہ پسند ہو گا کہ نماز [تراویح]با جماعت ادا کر کے سنت کو زندہ رکھے۔ تو اسحاق رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اپنایا۔" ختم شد
"المغنی" (1/457)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "مجالس شهر رمضان" (ص 22)میں کہتے ہیں:
"مسجد میں نماز تراویح کے لئے با جماعت ادائیگی سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی، پھر آپ نے امت پر فرض ہو جانے کے خدشے سے با جماعت تراویح ترک کر دی ۔۔۔ پھر انہوں نے پہلے ذکر کردہ دونوں روایات ذکر کرنے کے بعد کہا:
انسان کا نماز تراویح سے پیچھے رہ کر تراویح کے اجر و ثواب سے محروم رہنا اچھی بات نہیں ہے، نیز تراویح اور وتر امام کے ساتھ ادا کر کے ہی واپس ہونا چاہیے تا کہ اسے ساری رات قیام کرنے کا ثواب ملے۔" ختم شد
البانی رحمہ اللہ "قيام رمضان" میں لکھتے ہیں:
"قیامِ رمضان کے لئے جماعت کروانا شرعی عمل ہے، بلکہ با جماعت تراویح ادا کرنا اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عملاً اس پر عمل کیا اور قولاً اس کی فضیلت بھی بیان کی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ رمضان کی بقیہ راتوں میں اس لیے با جماعت قیام کا اہتمام نہیں کیا کہ آپ کو رمضان میں قیام کی فرضیت کا خدشہ تھا، اور فرض ہونے کی صورت میں امت پر مشقت ہوتی، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں موجود ہے، تو یہ خدشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد زائل ہو گیا کہ شریعت تو مکمل ہو چکی ہے، اس لیے نماز تراویح با جماعت ادا کرنے کے لئے رکاوٹ ختم ہو گئی تو سابقہ حکم دوبارہ سے لاگو ہو گیا اور وہ ہے تراویح کی با جماعت ادائیگی کا جواز؛ اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا احیا کیا جیسے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں یہ موجود ہے۔" ختم شد
"الموسوعة الفقهية " (27/138) میں ہے کہ :
"سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے خلفائے راشدین اور تمام مسلمانوں نے نماز تراویح با جماعت ادا کرنے کی پابندی کی ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں تراویح پڑھنے کے لئے اکٹھا فرمایا۔۔۔۔
اسد بن عمرو نے ابو یوسف سے نقل کیا ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور سیدنا عمر کے اقدام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: تراویح سنت مؤکدہ ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اقدام اپنی طرف سے نہیں کیا تھا، نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ اس اقدام میں بدعتی تھے، بلکہ انہوں نے اس کام کا حکم رسول اللہ کے زمانے سے موجود ایک دلیل کی بنا پر ہی دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اپنایا اور تمام لوگوں کو ابی بن کعب کی اقتدا میں جمع کیا تو انہوں نے جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام، مہاجرین اور انصار سب موجود تھے، لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس پر قدغن نہیں لگائی، بلکہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مدد کی اور اس پر موافقت کا اظہار کیا اور اس کا حکم بھی دیا۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب