كيا انسان كے ليے افضل يہ ہے كہ وہ بار بار اپنے ليے ہى نفلى حج كرتا رہے يا اپنے فوت شدہ رشتہ داروں يا زندہ رشتہ داروں كى طرف سے كچھ برس حج كرے، يعنى ايك سال اپنا اور دوسرے برس كسى ايك رشتہ دار كى طرف سے ؟
كيا بار بار اپنى جانب سے حج كرنا افضل ہے يا كہ رشتہ داروں كى جانب سے ؟
سوال: 46547
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
افضل تو يہ ہے كہ وہ اپنى جانب سے ہى حج كرے، كيونكہ يہى اصل ہے اور اپنے اور اپنےرشتہ داروں اور سب مسلمانوں كے ليے دعاء كرے، ليكن اگر اسكے والدين يا ان ميں سے كسى ايك نے فرضى حج نہ كيا ہو تو وہ ان كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرتے ہوئے اپنا حج كرنے كے بعد فوت يا عاجز ہونے كى صورت ميں ان كى جانب سے حج كر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ ہر ايك كے ليے عليحدہ عليحدہ حج يا عمرہ كرے، وہ دونوں كى جانب سے ايك ہى عمرہ نہيں كر سكتا، اور نہ ہى ايك ہى حج ميں انہيں جمع كرسكتا ہے. انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ الافتاء ( 11 / 66 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت اپنى فوت شدہ والدہ كى جانب سے حج كرنا چاہتى ہے اس كى والدہ فرضى حج كر چكى تھى، كيا اس كى جانب سے حج كرنا افضل ہے يا اس كے ليے دعاء كرنا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
” افضل يہ ہے كہ حج اپنا كرے اور والدہ كے ليے دعاء كرے، اس ليے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہيں، ليكن تين قسم كے اعمال منقطع نہيں ہوتے: صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيك اولاد جو اس كے ليے دعاء كرتى ہو”
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ نيك اولاد جو اس كى جانب سے حج كرے، يا روزے ركھے، يا صدقہ كرے، يا اس كى جانب سے نماز ادا كرے.
لہذا جب ہميں سائل يہ پوچھتا ہے كہ افضل كيا ہے كہ ميں نماز پڑھ كر اس كا ثواب والد كو پہنچاؤں، يا اپنے والد كى جانب سے صدقہ كر كے اس كا ثواب والد كے ليے كردوں، يا كہ اپنے والد كے ليے دعاء كروں ؟
تو ہم كہينگے كہ: افضل يہ ہے كہ آپ والد كے ليے دعاء كريں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہم سے زيادہ علم والے، اور ہم سے زيادہ نصيحت كرنے والے، اور ہم سے زيادہ فصيح تھے، انہوں نے يہ نہيں فرمايا كہ: يا نيك اولاد اس كے ليے عمل كرے، بلكہ يہ فرمايا:
” نيك اولاد اس كے ليے دعاء كرے”
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارى يہى راہنمائى فرمائى ہے” انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 251 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب