1 – كيا قربانى كے ليے خريدا ہوا مينڈھا ( چھترا ) خاندان كى مالى حالت سدھارنے كے ليے فروخت كرنا جائز ہے ؟
2 – كيا ايك سال سے كم عمر كا مينڈھا عقيقہ كے ليے ذبح كرنا جائز ہے ( بيٹے كے ليے دو اور بيٹى كے ليے ايك جانور ) ؟
گزارش ہے كہ ان سوالوں كے جوابات دينے كا اہتمام كريں كيونكہ ہم اس كے محتاج ہيں.
قربانى كے جانور كى فروخت اور عقيقہ كے جانور كى عمر
سوال: 47030
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قربانى يا ہدى ( حج ميں ذبح كيا جانے والا جانور ) كا جانور يا اس كا كچھ حصہ ( يعنى اونٹ ميں سے ) فروخت كرنا جائز نہيں، ليكن ھدى كى مصلحت كے پيش نظر ايسا كيا جا سكتا ہے، كيونكہ انسان جو چيز اللہ كے ليے نكال دے اس ميں سے كچھ بھى فروخت كرنا جائز نہيں ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس ( ھدى ) ميں سے كچھ بھى فروخت كرنا جائز نہيں، اور اگر قصائى فقير ہو تو اس اجرت كے علاوہ اس ميں سے كچھ ديا جائے تو جائز ہے كيونكہ وہ اپنے فقر كى بنا پر اس ميں سے لينے كا مستحق ہے، نہ كہ اجرت كى وجہ سے تو دوسرے كى طرح اس كا لينا بھى جائز ہوا ”
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 222 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قربانى ميں سے كوئى چيز بھى فروخت كرنى حرام ہے، نہ تو گوشت فروخت كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى كوئى چيز حتى كہ اس كى كھال فروخت كرنى بھى جائز نہيں، اور نہ ہى اس ميں سے كوئى چيز بطور اجرت دى جا سكتى ہے، كيونكہ يہ بھى فروخت كے معنى ميں آتا ہے ”
ديكھيں: رسالۃ احكام الھدى و والاضحيۃ.
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” اس ميں ( يعنى قربانى ) فروخت يا ہبہ يا رہن وغيرہ كے ذريعہ كوئى بھى ايسا تصرف كرنا جائز نہيں جو قربانى كے مانع ہو، ليكن اگر قربانى كى مصلحت كے پيش نظر اس كے بدلے كوئى بہتر اور اچھا جانور لينا ہو تو جائز ہے، اپنى مصلحت كے ليے نہيں.
اس ليے اگر كسى شخص نے كوئى بكرا قربانى كے ليے متعين اور مخصوص كر ديا اور پھر كسى غرض كى بنا پر اس كا دل اس كے ساتھ لگ جائے اور وہ نادم ہو كر اسے اس سے بہتر اور افضل سے تبديل كر لے تو ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ اللہ تعالى كے ليے نكالى گئى چيز ميں اپنى مصلحت كے ليے واپسى ہے، نہ كہ قربانى كى مصلحت كے ليے ”
رہا مينڈھا تو يہ بھيڑ ميں سے نر كا نام ہے، اصل يہى ہے كہ مينڈھا ايك برس كا ہو تا كہ اس كى قربانى جائز ہو، ليكن سنت ميں جذع كى قربانى كا جواز بھى ثابت ہے، اور جمہور علماء نے جذع كو بھيڑ كى نسل كے ساتھ خاص كيا ہے، نہ كہ بكرى كى نسل سے.
اور جذع بھيڑ ميں اس جانور كا كہتے ہيں جس كى عمر چھ ماہ ہو اور چھ ماہ سے جتنى زيادہ عمر كا ہو گا اتنا ہى بہتر اور اولى ہے، كيونكہ بعض مسلك والے تو كہتے ہيں كہ جذع كى عمر ايك برس ہوتى ہے.
شرعا معتبر عمر پر درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ مرفوعا بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” دو دانتا ( دوندا ) كے علاوہ كوئى اور نہ ذبح كريں، ليكن اگر آپ كو دو دانتا ملنا مشكل ہو جائے تو پھر بھيڑ ميں سے جذعہ ذبح كر ليں ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1963 ).
اس حديث سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ بھيڑ كى نسل ميں سے جذع يعنى چھ ماہ كا مينڈھا بھى اس وقت ذبح كرنا جائز ہے جب دو دانتا نہ ملے، ليكن جمہور علماء نے اسے استحباب پر محمول كرتے ہوئے درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:
1 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام ميں سے ايك صحابى بيان كرتے ہيں كہ:
” جذع اس سے كفائت كرتا ہے جس ميں دو دانتا كفائت كرتا ہے ”
سنن نسائى حديث نمبر ( 4383 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2799 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 – عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بھيڑ ميں سے جذعہ كى قربانى كى ”
سنن نسائى حديث نمبر ( 4382 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں اس كى سند كو قوى كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: التعليق على زاد المعاد ( 2 / 317 ).
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ عقيقہ ميں بھى وہى شروط ہيں جو قربانى ميں شروط ركھى گئى ہيں، كہ جانور ميں كوئى عيب نہ ہو اور اس كى عمر بھى جائز ہے، اس كى دليل يہ قياس ہے كہ يہ دونوں قربانى اور عبادت ہيں.
اس سے آپ كو يہ علم ہو گيا ہو گا كہ بھيڑ ميں سے جذع يعنى چھ ماہ كا مينڈھا عقيقہ ميں ذبح كيا جا سكتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب