ميں تعميراتى كمپنى ميں انجينئر ہوں، كمپنى نے مجھے ايك سياحتى علاقہ ميں جانے كا آرڈر جارى كيا ہے تا كہ وہاں سياحتى بستى قائم كى جا سكے، اس كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ اگر ميں نے جانے سے انكار كر ديا تو ميرى ملازمت جاتى رہے گى ؟
سياحتى بستياں بنانے ميں شريك ہونے كا حكم
سوال: 47513
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ تو معلوم ہى ہے كہ سياحتى بستياں بنانے ميں بہت سے اشكالات اور شرعى مخالفات پائى جاتى ہيں، مثلا مرد و زن كا اختلاط اور بے پردگى و بے ہودگى اور فحاشى و عريانى اور شراب، سود وغيرہ كا خيال ركھنا، اور اس كے علاوہ بھى بہت سى اشياء ہيں جو اہل فن جانتے ہيں.
آپ كے ملك كى سياحتى بستيوں كے متعلق مشہور ہے اور خاص كر مذكورہ علاقے ميں بہت سى حرام اشياء اور كام اور مخالفات پائى جاتى ہيں.
اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے، تو پھر اس طرح كى بستى بنانے يا اس ميں معاونت كرنے ميں گناہ ومعصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے.
اور تعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى پرہيز گارى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو.
اور اگر كوئى شخص برائى اور معاصى كے مرتكب افراد كے ساتھ اٹھے بيٹھے اور انہيں برائى سے منع نہ كرتا ہو تو صرف ان كے ساتھ بيٹھنے كى بنا پر ہى اسے بھى گناہ ہو گا، اور اسى طرح وہ شخص بھى گنہگار ہے جو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ استھزاء اور مذاق كرنے والوں كے ساتھ بيٹھے، اس پر بھى ان كا گناہ ہے، اگرچہ وہ ان كے ساتھ مذاق نہ بھى كر رہا ہو، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ جب تم اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو تم اس مجمع ميں ان كے ساتھ اس وقت تك نہ بيٹھو جب تك كہ وہ كسى اور بات ميں مشغول نہ ہو جائيں، ( اگر تم بيٹھو گے تو ) تم بھى انہيں جيسے ہو گے، بلا شبہ اللہ تعالى منافقوں اور كافروں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہےالنساء ( 140 ).
جب يہ حكم صرف ان كے ساتھ بيٹھنے والوں كے ليے ہے تو پھر ان كا حكم كيا ہو گا جو ايسا گھر تيار كرنے ميں مدد و معاونت كريں جہاں فسق و فجور اور اللہ تعالى كى نافرمانى كى جائے، يا ايسا گھر تيار كرنے ميں مدد دے جس ميں وہ لوگ بيٹھ كر اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ مذاق وغيرہ كريں!!
عزيز بھائى آپ پر واجب ہے كہ آپ ان ذمہ داران كو نصيحت كريں، اور بتائيں كہ جو كچھ آپ كر رہے ہيں وہ حرام ہے، اور يہ كہ وہ گناہ ميں شريك ہيں اور اگر وہ آپ كى بات تسليم نہ كريں تو پھر آپ يہ كام كرنے سے معذرت كر ليں، اور اس كے ليے كوئى بھى بہانہ تراش ليں، يا مسافت زيادہ ہونے كا بہانہ بنا ليں، يا پھر رسمى طور پر چھٹياں لے ليں.
اور اگر ايسا نہ كر سكيں – ہمارے خيال ميں يہ معاملہ ان شاء اللہ اس حد تك نہيں پہنچے گا- تو پھر آپ كوئى اور كام تلاش كر ليں، اور اللہ تعالى سے دعا كريں كہ وہ آپ كے ليے خير وبھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے، كيونكہ دنيا كى مشكلات آخرت كے عذاب سے زيادہ آسان اور ہلكى ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب