ايسے شخص كا حكم كيا ہے جو حج كے ليے گيا تو عمرہ كى نيت والدہ اور حج كى نيت والد كى جانب سے كى، اور دوسرے برس اس كے برعكس حج والدہ كے ليے عمرہ والد كے ليے كرتا تو كيا يہ جائز ہے يا نہيں ؟
0 / 0
5,37405/12/2006
كيا ايك ہى برس ميں حج كسى شخص كى جانب سے اور عمرہ كسى دوسرے كى جانب سے ادا ہو سكتا ہے ؟
سوال: 47624
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” حج اور عمرہ دونوں عليحدہ اور مستقل عبادات ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حج قران اور تمتع اور افراد كى كيفيت اور ادائيگى كا طريقہ بيان فرما ديا ہے، لہذا جو كوئى بھى مثلا عمرہ والدہ كى جانب سے كرنا چاہتا ہے اور عمرہ مكمل كرنے كے اور حلال ہو جانے كے بعد حج اپنے والد كى جانب سے كرنا چاہتا ہے تو اسے يہ حق ہے.
اور اگر وہ دونوں حج يا عمرہ ميں كوئى ايك اپنے ليے كرنا چاہتا ہے، اور اس سے حلال ہونے كے بعد وہ دوسرے كا احرام باندھتا ہے مثلا والد كى جانب سے تو يہ جائز ہے؛ كيونكہ اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو ” انتہى .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 58 )