كفار كے ممالك ميں اسلام قبول كرنے والے شخص كا حكم كيا ہے؟
كيا وہ مندرجہ ذيل حديث كے تحت آتا ہے:
" ميں ہر اس مسلمان شخص سے برى ہوں جو مشركوں كے مابين رہتا ہے"
اوركيا اس پر ہجرت كرنى واجب ہے ؟
كيا كفار كے ممالك ميں اسلام قبول كرنے والے شخص پر ہجرت واجب ہے ؟
سوال: 47672
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كفار كے ممالك ميں جو شخص بھى اسلام قبول كرے اور وہ دين اسلام پر عمل نہ كر سكتا ہو، اور اس كے ليےدين كا اظہار كرنا مشكل ہو، اور عبادت كرنا ممكن نہ ہو، يا اسے اپنے دين كے متعلق فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہو اور اپنى عزت محفوظ نہ ركھ سكے تو ايسے شخص پر ہجرت كرنى واجب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميں ہر اس مسلمان شخص سے برى ہوں جو مشركوں كے مابين رہائش اختيار كرتا ہے"
ليكن اگر وہ اپنے دين كا اظہار كرنے پر قادر ہو، اور دينى شعائر پر عمل كر سكتا ہو، اور ہجرت پر بھى قدرت ركھتا ہو تو اس كے ليے اس حالت ميں ہجرت كرنى جائز اور مستحب ہے، ليكن واجب نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المغنى " ميں لكھتے ہيں:
لھذا اس كے ليے ( ہجرت ) مستحب ہے، تا كہ وہ ان ( يعنى كفار ) كے خلاف جھاد كر سكے، اور مسلمانوں كى كثرت اور ان كى معاونت كا باعث بن سكے؟. اھـ
اور اگر وہ دين كے اظہار پر قادر ہو، اور فتنہ و فساد ميں پڑنے سے بھى پرامن ہو، اور دعوت و تبليغ كا كام كرے، اور مسلمان بچوں كى تعليم و تربيت كا كام كرے اور انہيں ان كے دينى معاملات سكھائے تو اسے وہيں رہنا چاہيے اور وہ وہاں سے ہجرت نہ كرے.
كيونكہ اس كے وہاں رہنے ميں مصلحت ہے، اس كا ثبوت سنت نبويہ سے بھى ملتا ہے.
مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے ساتھى جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور كچھ ايام ان كے پاس قيام كيا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھا كہ وہ اپنے اہل و عيال ميں واپس جانے كا شوق ركھتے ہيں تو انہيں واپس جانے كا حكم دينے كے ساتھ ساتھ اپنے علاقے كے لوگوں كو تعليم دينے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" اپنے اہل و عيال ميں واپس جاؤ اور انہيں تعليم دو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 674 )
اور بخارى و مسلم رحمہما اللہ تعالى نے ابو سعيد خدري رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہجرت كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تيرے ليے تباہى، ہجرت كا معاملہ تو بہت شديد ہے، كيا تيرے اونٹ ہيں؟ تو وہ شخص كہنے لگا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا اس كى زكاۃ ادا كرتے ہو؟
اس نے جواب ديا: جى ہاں
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ان بستيوں كے پيچھے عمل كرتے رہو، كيونكہ اللہ تعالى تيرے عمل ميں كچھ كمى نہيں كرے گا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1452 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1865 )
امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:
( تيرے عمل ميں كچھ كمى نہيں كرے گا )
اس كا معنى يہ ہے كہ: تم جہاں كہيں بھى رہو تيرے عمل كے ثواب ميں كچھ كمى نہيں كى جائے گى.
علماء كرام كہتے ہيں:
يہاں البحار سے بستياں اور گاؤں مراد ہيں، عرب بستى كو بحار كہتے ہيں، اور قريۃ بحيرہ كو كہا جاتا ہے.
علماء رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
اس اعرابى نے جس ہجرت كے متعلق دريافت كيا تھا اس سے مراد مدينہ شريف كى طرف ہجرت كرنا اور اپنے پيچھے اہل و عيال چھوڑ كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مدينہ ميں رہنا، اور اپنے اہل و عيال اور وطن كو چھوڑنا مراد تھا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو خدشہ محسوس ہوا كہ يہ شخص اس ہجرت كے حقوق صحيح طرح ادا نہيں كر سكے گا اور اس پر ثابت قدم نہيں رہے گا، اور اپنى ايڑيوں پر پھر جائے گا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" جس ہجرت كے بارہ ميں تم دريافت كر رہے ہو اس كا معاملہ بہت شديد اور سخت ہے، ليكن تم آپنے وطن ميں ہى نيكى و بھلائى كے كام كرتے رہو، تم جہاں بھى رہو گے يہ تمہيں نفع و فائدہ ديں گے، اور اللہ تعالى اس كے اجروثواب ميں سے كچھ بھى كمى نہيں كرےگا. اھـ
لھذا ہجرت كا دارومدار تو دينى شعائر اور عبادت كے اظہار كى قدرت و استطاعت پر ہے، اگر كوئى شخص اس كى استطاعت نہيں ركھتا اور اسے فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہے تو اس شخص پر ہجرت كرنى واجب ہے.
اور اگر وہ شخص اپنى دينى شعائر اور عبادات كا اظہار كر سكتا ہے اور اس كے ليے ہجرت كرنا بھى ممكن ہے تو ايسے شخص كے ليے ہجرت كرنى مستحب اور جائز ہے.
اور اگر وہ شخص دينى شعائر اور عبادات كا اظہار كر سكتا ہے، اور دعوت و تبليغ كا كام اور مسلمانوں كو تعليم ديتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے وہ وہيں رہے.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا اور حكمتوں والا ہے، اللہ تعالى ہميں اور سب كو اپنے محبوب اور رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
آپ اہميت كے پيش نظر سوال نمبر ( 13363 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات